عرفان کیا ہے؟

عرفان بنیادی طور پر تعلیم و تربیت کا ایک ایسا نظام ہے جو حقیقی متلاشیوں کے لیے خودشناسی کے سفر کو ممکن بناتا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو انسان کے لیے خود اس کی وجودی حقیقت کو منکشف کرتا ہے اور آخرکار دین کی حقیقت کی طرف اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ حضرت صلاح الدّین علی نادرعنقا مکتبِ طریقتِ اویسیَ شاہ مقصودی ®کے استاد یوں تعلیم فرماتے ہیں: "انسان اپنے ماحول کا خود معمار ہوتا ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو حدبندیاں بناتے ہیں، ساتھ ہی ہم انھیں توڑتے بھی ہیں، اور پھر مصمّم ارادہ کرتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے گا، اپنی خودشناسی کے سفر اور اپنے باطنی اسرار کو دریافت کریں گے، تاکہ دین کی حقیقت پانے کے لیے آگے بڑھیں۔ نفس کی حقیقی شناخت ہی انسان کو حدبندیوں، وابستگیوں اور باطنی اسیری سے رہائی دلا کر آزادی، سکون اور حقیقی آسودگی کی طرف ہدایت کرتی ہے۔"

عرفان کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اہم تر اصول یہ ہے کہ ہم جان لیں، ہستی میں جو کچھ ہے، وہ ایک واحد دانشِ مطلق اور علمِ ازلی کی تجلّی اور ظہور ہے، جو ہمہ گیر ہے اور ہر شے پر نافذ ہے اور زمان و مکاں میں محدود بھی نہیں ہے۔ اس اصل میں انسان بھی شامل ہے۔ اس بنا پر اس علم ازلی کا انکشاف کرنے اور اُس پر دست رس حاصل کرنے کا نزدیک ترین راستہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے وجود پر کاوش کرے۔ جو کچھ عرفان اور اس کی تاریخ کے بارے میں لکھا گیا ہے، وہ علم عرفان کے بیرونی پہلوؤں کو بیان کرنے والا ہے۔ عرفان کی حقیقت کو عُرفا کی تعلیمات میں ڈھونڈنا چاہیے۔ یہ عرفا حقیقت کے متلاشیوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اِس حقیقت کا تجربہ خود اپنے باطن اور کنہِ وجودی میں کریں، تاکہ ثابت قدمی سے وجود کے اعلٰی ترین مراتب کی شناخت تک پہنچ سکیں۔

آج سے چودہ سَوسال پہلے پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا: "من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ۔" (جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اُس نے اپنے پروردگار کو پہچانا۔) اسلام میں انسان کے وجود کی اصل حقیقت و ہوئیت، دوسرے الفاظ میں اُس کی حقیقی "میں" وہی حقیقت اور ذاتِ الہٰی ہے جو اُس کے باطنی وجود میں پوشیدہ ہے اور اِس کلّیے کی بنیاد پر وجود کی وحدت کا قانون اور خداوند تعالٰی کی توحید پر ایمان، کلمہ "لا اِلہ اِلّا اللہ" (کوئی معبود نہیں سواے اللہ کے) میں جلوہ گر ہے۔ یہ قانون اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان کوئی فاصلہ اور جدائی نہیں اور انسان کا آخری بلندترین مرتبہ اور مقام ایک ایسا شرف ہے جسے خود وجودِ کل نے اسے عطا کیا ہے۔ قرآنِ کریم سورہ ق ۳۰/ آیت ۱۶/ میں ارشاد ہوتا ہے: "نحن اقرب الیہ من حبل الورید" (ہم اُس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔)

علم ذاتی کے سا منے سرِ تسلیم خم کرنا

حضرت محمّد(ص) نے اِس بارے میں واضح تعلیم دی ہے کہ کوئی انسان کس طرح اپنے انفرادی وجود کی حقیقی شناخت حاصل کرسکتا ہے، اور اُس کا دستورالعمل کیا ہونا چاہیے۔ اُن کے فرمان کے مطابق معرفت کا حصول اُس علمِ ذاتی اور ازلی دانش کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے ممکن ہے جو انسان کے کنہِ وجود میں ودیعت کی گئی ہے، مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاشروں میں 'تسلیم' کا ایک غلط مفہوم رائج ہوچکا ہے، جہاں سب سمجھتے ہیں کہ تسلیم کا مقصد کسی کی اندھی تابع داری اور اندھی تقلید ہے، جب کہ اندھی تقلید اور خرافات پر وقت ضائع کرنا اُس انسانی وقار اور مرتبے کے خلاف ہے جو اللہ نے اُسے عطا کیا ہے۔

جب بھی ہم نظام شمسی کا موازنہ ذرّات کی ایٹمی ساخت سے کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں ایک درونی اور ذاتی علم کے سامنے سرنگوں ہیں اور وجود کے قوانین اُن پر حاکم ہیں۔ انسان بھی جب اپنے علم ذاتی کے پوشیدہ سرچشمے سے آگاہ ہو جاتا ہے اور دوسرے الفاظ میں اپنے حقیقی "میں" کی معرفت حاصل کر لیتا ہے تو اس میں پوشیدہ علم کے سامنے سرِتسلیم خم کردیتا ہے۔ یہی وہ آزادی، حرّیت اورعشق و جذبے کا مقام ہے جو طویل صدیوں سے برگزیدہ عرفا کی کتابوں میں جلوہ گر تھا اوراب تک ہے۔ اس بارے میں امیرالمومنین(ع) کے گراںقدر اقوال عالم بشرّیت کے لیے چراغ راہ ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

"اسلام وہی تسلیم ہے
اور تسلیم سے مراد وجود کی عین واقعیت میں
ثابت قدمی اور استقلال ہے۔"

ایسی تسلیم اور ایسا استقرار ہی اسلام کے لیے حیات بخشی اور احیا کا سبب ہے، کیوں کہ یہ تسلیم انسان کے کنہِ وجود کی مرکزیت، یعنی قلب میں ایک انقلاب برپا کردیتی ہے۔

یہی وہ منزل ہے جہاں تمام فرضی حدبندیاں، فاصلے اور موہوم دوئی کے پہلو ختم ہوجاتے ہیں اور انسان وجود کی وحدت کا علم و یقین حاصل کرکے اس کی گواہی دیتا ہے۔ اب ایسی شہادت الفاظ میں محدود ہو کر نہیں رہ جاتی، بلکہ سالک کے جسم وجان و فکر، دوسرے الفاظ میں اُس کے وجود کی ہمہ پہلو کلّیت خداے یگانہ کو متجلّی کرلیتی ہے۔

شناخت کی ایسی روش اور طریقہ جو تزکیۂ نفس، صفاے قلب اور دانشِ ذاتی کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے سے حاصل ہو تا ہے، 'معرفت' کہلاتا ہے۔ 'معرفت' شناخت کا ایک مرتبہ حاصل کرنے کا نام ہے، اوراس میں مورد تحقیق و تجسّس موضوع کے گوشوں میں سے کوئی گوشہ، یعنی انسان کا کوئی پہلو اس کے لیے نامعلوم نہیں رہتا۔ آخرِکار انسان اپنی حقیقت کی شناخت کے ساتھ اپنے پروردگار کی شناخت، نیز ہستی کے پوشیدہ اسرار کا علم حاصل کرتا ہے۔ مکتبِ عرفان کا وہ معلّم جو اِس روشنی کی تعلیم دیتا ہے، 'عارف' کہلاتا ہے۔ عارف ذاتِ خداوندی میں فنا ہو کر اور حقیقتِ ہستی میں ثبات حاصل کرکے اپنے وجود کی حقیقت کو کشف کرتا ہے۔

کے عارف حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا اپنی کتاب "عرفان: دین کی حقیقت" میں عرفان کو یوں بیان کرتے ہیں:

"عرفان، دین کی حقیقت ہے اور اس کلام سے میری مراد ہے، اپنے باطن میں خدا کے وجود کا تجربہ کرنا، اس کےآگے سرِتسلیم خم کردینا، اُس سے اپنی سوچوں میں، اپنے دل میں، اپنی روح میں شدید محبّت کرنا، یہاں تک کہ دونوں کے درمیان کسی غیر کا وجود باقی نہ رہے، فقط محبوب رہ جائے۔ یہی حقیقتِ دین ہے، جیسا کہ میں نے سمجھا ہے۔"


I. Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Sufism and Knowledge (Washington D.C.: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1996), 20-21.
2. Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Theory “I”: The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 166.