حضرت صلاح الدین علی نادر عنقا

مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی® پیر


"تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا."

-- 57:9--

مولانا صلاح الدّین علی نادر عنقا، المعروف بہ "حضرت پیر" مكتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی® کے بیالیسویں پیر ہیں۔ یہ طریقہ پیغمبرِ عظیم الشّانِ حضرت محمّد (ص) کے زمانے تک، یعنی 1400 سال سے زیادہ قدیم ہے۔ مكتبِ عرفانِ اسلامی میں علمِ باطنی، جو پیغمبرِ مكرّم (ص) کی جانب سےحضرت امیرالمومنین علی (ع) اور اِسی طرح اویس قرنی اور سلمان فارسی کو منتقل ہوا، اویسی مشرب کے پیران و عرفاے عالی مقام کے غیر منقطع سلسلے سے زمانہَ حال تک پہنچتا ہے۔ اس راہ میں پیر ہی ہے جو اراده و اشارتِ خداوندی سے اپنے شاگرد کو اُس کی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق اُس کی ذاتی استعداد کی شگفتگی اور امانتِ الٰہی کی قبولیت تک تعلیم و تربیت فرماتا ہے۔

حضرت پیر معظّم نے اتوار کے دن، آٹھویں مہر ماه 1324ہجری خورشیدی، بمطابق تیسویں ستمبر 1945 عیسوی کو تہران میں ولادت پائی۔ حضرت پیر کے سفرِ روحانی کا آغاز طفولیت ہی میں اُس وقت ہو گیا تھا جب عالمِ عرفان کی مخصوص علامات اُن میں ظاہر ہوئیں۔ وہ گیارہ برس تک اپنے دادا، مكتبِ طریقتِ اویسی کے چالیسویں پیر حضرت میر قطب الدّین محمّد عنقا کے زیرِتربیت رہے، اور اُس کے بعد اپنے والدِ بزرگ وار مولانا المعظّم حضرت شاہ مقصود، المعروف بہ پروفیسر عنقا کی براہِ راست نگرانی میں رہے۔

چوتھی ستمبر 1970 عیسوی کو حضرت شاہ مقصود کی موجودگی میں ایک مجلس رہنمائی میں، جس میں مریدوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، اُنھوں نے اپنے والد کے دستِ مبارک سے خرقے کا تبرّک پایا۔ حضرت شاہ مقصود نے اپنی تقریر کے دوران خرقہ اُنھیں تفویض کیا۔

حضرت شاہ مقصود حضرت پیر کے عشق، اعتماد اور احترام سے اِس درجے سرشار تھے کہ اُنھوں نے موزوں لطافت سے اپنی کلّیات، مشمولہَ "سیرالحجر،" "حماسہَ حیات،" "مثنوی شاہد و مشہود،" "سیرالسّائر و طیرالنّادر،" "الرّسائل" اور "اصولِ فقر و تصوّف" میں اپنا رُوے سخن مسلسل اُنھی کی طرف رکھا ہے، اور خصوصاً ساری کتابِ غزلیات میں اپنے فرزند کے عشق میں تغزُّل ان کے پیش نظر ہے۔