وادی فقر کا بیان

«منطق‌الطّیر»
عطّار

ایک شب اک بزم میں سب جمع پروانے ہوئے
رازِ حُسنِ شمع کی خواہش میں دیوانے ہوئے

چاہتے تھے ہم میں سے اُڑ کر کوئی جائے اُدھر
اور اُس محبوب کی جلدی سے لے آئے خبر

ایک پروانہ اُڑا اور قصر کی جانب گیا
شمع کے جلوے کو دیکھا، دیکھ کر واپس ہوا

واپس آ کر شمع کے بارے میں سب سے بات کی
سب کو سمجھانے لگا، کیسی تھی اُس کی روشنی

ایک ناقد تھا اُسی مجمع میں، اُس نے راے دی
شمع کے بارے میں اِس کو کچھ نہیں ہے آگہی

تب کہا ایک اور پروانے نے، اَب میں جاؤں گ
سب خبر اُس شمع کی تفصیل سے لے آؤں گ

دور سے دیدار اُس محبوب کا اُس نے کیاا
اک جھلک دیکھی ہی تھی کہ پھڑ پھڑا کر رہ گیا

شوق کی شدّت میں جوں ہی گِرد وہ اُس کے پھرا
شمع غالب آ گئی، مغلوب پروانہ ہوا

واپس آ کر سب سے پھر اُس نے بھی حالِ دِل کہا
وصل کا ہر راز پیہم، بر سرِ محفل کہا

بولا ناقد، سچ یہ ہے، تم بھی ہو بالکل بے خبر
شمع پر تم نے بھی ڈالی ہے اچٹتی سی نظر

جوشِ عشقِ شمع میں ایک اور پروانہ اُٹھا
جھومتا اور رقص کرتا قصر کی جانب گیا

شمع کے شعلے پہ جا کر اُس نے لب یوں رکھ دیے
جسم سارا جل گیا اور پر بھی سارے جل گئے

اُس کا سارا ہی سراپا، سرخ و شعلہ رُو ہوا
شعلہ رو ہوتے ہی وہ ہمرنگِ شمع ہو گیا

دیکھنے والے نے جب دیکھا اُسے تو یہ کہا
ہو کے گم اب شمع میں، پروانہ خود شمع ہوا

مٹ گیا تو شاملِ اہلِ نظر، یہ ہو گیا
شمع کی ہر اصلیت سے با خبر یہ ہو گیا

تو بھی جب تک ہو نہ جائے جسم و جاں سے ماورا
مل نہیں سکتا تجھے محبوب کا اپنے پتا

اور اگر ایک موے تن بھی تیرا باقی رہ گیا
تجھ کو حاصل ہو نہیں سکتا کبھی رازِ بقا

یہ فنا اک شرط ہے لا انتہا کے وصل کی
بے خبر ہو کر ہی مِلتی ہے خبر اُس اصل ک
ی