مذاہبِ ابراہیمی کے مابین بنیادی وحدت

تاریخی بنیاد (1)

تینوں بڑے ابراہیمی مذاہب، یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام، براہِ راست حضرت ابراہیم(ع) سے متعلّق ہیں اور اِن میں وہی دستور رائج ہیں جو حضرت ابراہیم(ع) کے احکامات و تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ اپنی کتاب بعنوان “محمد: حیاتِ پیغمبرِ اسلام، مبنی برمآخذِ قدیم”1 میں کارل لنگز (Carl Lings) نے پیغمبرِاسلامﷺ کی زندگی کا احوال بیان کیاہے۔ اِس کتاب کے پہلے باب میں اُنھوں نے لکھا ہے کہ کس طرح حضرت ابرہیم(ع)، اپنے دو صاحب زادوں، حضرت اسحاق(ع) اور حضرت اسماعیل(ع) کے ذریعے “دو مختلف روحانی سرچشموں کی بنیاد ”بنے ہیں۔

حضرت ابراہیم(ع) اپنے بیٹے حضرت اسحاق(ع) کے ذریعے یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے اور حضرت اسماعیل(ع) کے ذریعے مسلمانوں کے لیے، اُن کے جَد اور سرپرست قرار پائے ہیں۔ مسلمان اپنے آپ کو ملّتِ ابراہیم(ابراہیم کے پیروکار) قرار دیتے ہیں۔
قرآن میں ارشاد ہوا:

بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اُس وقت موجود تھے، جب اُنھوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو اُنھوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا، ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے، جو معبودِ یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں۔
(سورۂ بقرہ:۲، آیت:۱۳۳)

توریت میں بیان ہوا ہے کہ ابراہیم(ع) کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اُنھیں امید بھی نہ تھی کہ اولاد ہوگی۔ ایک رات الله نے اُنھیں اُن کے خیمے سے باہر طلب کیا اور کہا: “اب آسمان کی طرف نگاہ کر اور اگر تُو ستاروں کو گن سکتا ہے تو گن۔” جب ابراہیم(ع) نے ستاروں کی طرف نگاہ کی تو آواز کو کہتے سنا: “تیری اولاد ایسی ہی ہوگی۔” (پیدائش، باب:۱۵، آیت:۵)

ابراہیم(ع) کی زوجہ سارا، بوڑھی اور بانجھ عورت تھیں۔ ابراہیم(ع) خود بھی بہت عمر رسیدہ تھے۔ اُن کی زوجہ نے ایک مصری خاتون ہاجرہ نامی اُنھیں لاکر دے دیں تاکہ وہ اُنھیں اپنی زوجہ بنا سکیں، مگر پھر دونوں عورتوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہوگئیں۔ ہاجرہ نے سارا کے غصّے سے پریشان ہو کر گھر چھوڑ دیا اور سخت پریشانی کے عالم میں اپنے رب سے رو رو کر فریاد کی۔ الله نے ایک فرشتے کو اُن کے پاس اِس پیغام کے ساتھ بھیجا: “میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا ،یہاں تک کہ کثرت کے سبب سے اُس کا شمار نہ ہو سکے گا۔” فرشتے نے یہ بھی کہا کہ “تُو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا ہوگا، اُس کا نام اسماعیل رکھنا، اِس لیے کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا۔”(پیدائش، باب:۱۶، آیات:۱۱۔۱۰) ہاجرہ یہ سن کر حضرت ابراہیم(ع) اور سارا کے پاس واپس آئیں اور اُنھیں بتایا کہ فرشتے نے کیا کہا ہے۔ جب بچّے کی پیدائش ہوئی تو ابراہیم(ع) نے اپنے بیٹے کا نام اسماعیل رکھا، جس کا مطلب ہے، “الله سنے گا۔”

جب یہ بچّہ تیرہ برس کا ہوا تو خدا نے ابراہیم(ع) سے دوبارہ خطاب کیا اور وعدہ کیا: “دیکھ، میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تُو بہت قوموں کا باپ ہوگا۔” (پیدائش، باب:۱۷، آیت:۴) “اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان، اُن کی سب پشتوں کے لیے اپنا عہد، جو ابدی عہد ہوگا، باندھوں گا۔” (پیدائش، باب:۱۷، آیت:۷)

خدا نے ابراہیم(ع) سے وعدہ کیا کہ سارا کے ہاں بھی ایک بیٹا ہوگا، جو اسحاق کہلائے گا۔ ابراہیم(ع) یہ سن کر ڈر گئے کہ کہیں اُن کا بڑا بیٹا خدا کی نگاہ میں کم حیثیت نہ قرار پائے۔ اُنھوں نے اپنے رب سے دعا کی: “کاش اسماعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے۔” تب خدا نے فرمایا :“اسماعیل کے حق میں بھی میں نےتیری دعا سنی۔ دیکھ، میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے آبرومند کروں گا اور اُسے بہت بڑھاؤں گا اور اُس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اُس کی بڑی قوم بناؤں گا۔”(پیدائش، باب:۱۷، آیات:۲۱۔۲۰)

بالآخر سارا کے ہاں اسحاق کی ولادت ہوئی۔ جب اُن کا دودھ چھڑایا گیا تو سارا نے ابراہیم(ع) سے کہا کہ اب ہاجرہ اور اُن کا بیٹا اِس گھر میں ہرگز نہیں رہ سکتے۔ ابراہیم(ع) کو اِس بات سے بہت صدمہ پہنچا، کیوں کہ اُنھیں اسماعیل سے بے حد پیار تھا۔ پھر خدا نے اُن سے دوبارہ خطاب کیا اور ہدایت کی کہ تم سارا کی بات مان لو اور ہرگز صدمہ نہ کرو۔ اور پھر خدانے وعدہ کیا کہ اسماعیل کو نعمتیں عطا ہوں گی۔

اِس طرح، ابراہیم(ع) کے مدار میں موجود دو مراکز اور دو الگ الگ روحانی سرچشموں نے انسانوں کو باہمی رشتے میں پرونے کے لیے اپنا کام شروع کر دیا، یعنی محض ایک نہیں، بلکہ دو عظیم قوموں نے ابراہیم کو اپنے بانی کے طور پر دیکھا۔ ایسی دو عظیم قومیں، جو دو راہ نما قوّتیں ہیں اور جو ارادہٴ قدرت کے عین مطابق اپنا کام سر انجام دے رہی ہیں، کیوں کہ خداکسی ایسی نعمت کا وعدہ نہیں کرتا جو ناپاک اور بے حرمت ہو۔ خدا کے نزدیک “روحانی عظمت” کے سامنے ہر عظمت ہیچ ہے۔ اِس طرح گویا حضرت ابراہیم(ع) دو روحانی دھاروں کا اصل سرچشمہ قرار پاتے ہیں جو وحدت کے سمندر کی سمت ہماری راہ نمائی کر رہے ہیں۔ ابراہیم(ع) نے الله پر توکّل کیا اور ہاجرہ اور اسماعیل کو اُس کے سپرد کردیا اور اُنھیں اطمینان تھا کہ فرشتگانِ الٰہی ہاجرہ اور اسماعیل کی مدد کریں گے۔ ابراہیم(ع) کو یقین تھا کہ ہاجرہ اور اسماعیل الله کی پناہ میں رہیں گے۔


1. Martin Lings, Muhammad, his life based on the earliest sources (Vermont: Inner Traditions International, 1983)
2. The New Oxford Annotated Bible (Revised Standard Version), (New York, NY: Oxford University Press, 1973)