اعتدال اور توازن

"اللہ وہی ہے جس نے برحق کتاب اور میزان نازل کیا۔"

قرآنِ کریم :(سورۂ شوریٰ:۴۲، آیت۱۷)

"اور اُسی نے یہ آسمان بلند کیا اور ترازو قائم کیا تاکہ تم ترازو کے ساتھ تولنے میں تجاوز نہ کرو، اور انصاف کے ساتھ وزن درست رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔"

قرآنِ کریم :(سورۂ رحمٰن:۵۵، آیت۷تا۹)

عدل کی بنیاد کا کُلّی مفہوم خداوندِعالم کے عادل ہونے کا عقیدہ رکھنا ہے اور وہ یہ ہے کہ خداوندِعالم ہر شخص کو اس کے اعمال اور کردار کی بنیاد پر صلہ اور جزا دے گا۔ عدل کے لفظ میں مکمّل طور پر ہر "دو چیزوں کے برابر کرنے" کا مفہوم ہے۔ برابری اور مساوات کا نظریے کو انصاف کی رعایت رکھتے ہوئے افراد کے حقوق پامال نہ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نتیجتاً عدل کی بنیاد بھی "خدا کے عادل ہونے" اور"اعمال و کردار کے ضائع نہ ہونے"، "دقیق معیار کے ہونے، جس میں نہ کمی ہو اور نہ اضافہ" اور" ہر چیز کو اُس کی موزوں جگہ پر رکھنے" پر اعتقادکے معنوں میں القاگیا ہے۔

لیکن یقینی طور پر اسلام کی یہ عمدہ ترین بنیاد اِس سے بھی زیادہ گہرے معنی اور قدر و قیمت کی حامل ہے اور چاہیے کہ اُس کی حقیقت سمجھی جائے۔ اگر ہم کائنات میں باریکی سے غور کریں تو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ نظامِ شمسی کے تمام سیّارے اور کُرے اعتدال اور کامل وجودی توازن کے حامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے مدار میں سورج کی مرکزیت کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس طرح یہی اعتدال و توازن تمام کہکشاؤں میں بھی کارفرما ہے۔انسان بھی ہستی کے اِسی بطن میں ہے اور وجود کے قوانین اُس پر بھی لاگو ہیں اور وہ کوشش کرتا ہے کہ اِس اعتدال کی حفاظت کرے۔ وجودی توازن اور اعتدال، ثابت مرکزیت کے وجود کا حاصل ہے جو ہمہ پہلو ثبات اور استقرار کی ضمانت دیتا ہے۔1

"بہ تحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی ہم نے تاکہ لوگ انصاف پرقائم رہیں۔"

قرآنِ کریم :(سورۂ حدید:۵۷، آیت۲۵)

حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا، پیرِاویسی تعلیم فرماتے ہیں کہ: "انسان ایک حقیقی اور جامع اکائی ہے" اِس بنا پر ہستی کے قوانین اُس پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ انتہا یہ کہ وجودی اعتدال اور توازن اُس کی وجودی مرکزیت میں پوشیدہ ہیں۔ حقیقی "میں" کا انکشاف، ایک ثابت میزان کی اکائی انسان کے اختیار میں دیتی ہے تاکہ افراط و تفریط سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے وجود کے دونوں پہلوؤں، یعنی مادّی پہلو اور روحانی پہلو کو یگانگت اور ہمہ جہت جامعیت سے جان لے اور عدل سے کام لے۔

قرآنِ کریم :(سورۂ حدید:۵۷، آیت۲۵)

حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا، پیرِاویسی تعلیم فرماتے ہیں کہ: "انسان ایک حقیقی اور جامع اکائی ہے" اِس بنا پر ہستی کے قوانین اُس پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ انتہا یہ کہ وجودی اعتدال اور توازن اُس کی وجودی مرکزیت میں پوشیدہ ہیں۔ حقیقی "میں" کا انکشاف، ایک ثابت میزان کی اکائی انسان کے اختیار میں دیتی ہے تاکہ افراط و تفریط سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے وجود کے دونوں پہلوؤں، یعنی مادّی پہلو اور روحانی پہلو کو یگانگت اور ہمہ جہت جامعیت سے جان لے اور عدل سے کام لے۔

"جواذب میں اعتدال قائم رکھنا حرّیت کا مرکزی نقطہ ہے۔"2

"قلب کے سرچشمۂ حیاتی میں قوّتوں کو مرکوز اور مجتمع کرنے ہی سے روحانی پہلوؤں اور لطیف جہات کو لازمی ہم آہنگی میسّر ہوتی ہے اور "اصلِ عدل" کی حقیقت ہر فرد کے لیے واقعیت پاتی ہے۔"3


I. Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Sufism Lecture Series (Washington, D.C.: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1996)
2. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Message from the Soul (Verdugo City, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1986)
3. Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Theory “I”: The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002)