عرفان کا لزوم کس چیز میں ہے؟

"عقل مند وہ ہیں جو فائدہ حاصل کرنا جانتے ہیں، اور خود کو نقصان سے بچا سکتے ہیں۔"
(پروفیسر صادق عنقا)

پروفیسر صادق عنقا کتاب "سحر" میں مندرجۂ ذیل بنیادی سوال کو زیرِبحث لاتے ہوئے اِس کے جواب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
سوال یوں ہے::

ا"اگر لوگ مجموعی طور پر ایمان دار ہیں، تمام معاشرتی قوانین اور معاہدوں کا احترام کرتے ہیں، اپنے عقائد کو محض اندھی تقلید کے طور پر نہیں اپناتے، اور اِس کے باوجود کسی مذہب کے پیروکار نہیں ہیں تو کیا وہ تب بھی اُن لوگوں میں قرار دیے جائیں گے جو خسارے میں ہیں؟ اگر آپ کا جواب 'ہاں' ہو تو گویا تعلیماتِ عرفان کی اہمیت اور ضرورت خود بہ خود واضح ہو گئی۔

اِس سوال کا تعلّق صرف اُس شخص سے ہے جو ایمان دار، فرماں بردار اور قابلِ اعتماد ہے، معاشرے میں بااثر ہے، لوگوں کے لیے بے ضرر ہے، اور دوسروں کے کام آنے والا ہے۔ اگر اِس طرح کا آدمی 'عارف' نہیں ہے، یا مذہب سے بالکل لاتعلّق ہے تو کیا وہ خسارے میں ہوگا؟
اِس کے بعد فرماتے ہیں: دراصل 'تعلیماتِ عرفان' اُن لوگوں کو زیرِبحث نہیں لاتیں جو جہل کا شکار ہوتے ہیں، غافل اور بے خبر ہوتے ہیں، اپنی حد سے تجاوز کیے ہوتے ہیں، اور مسلسل گناہ گار ہوتے ہیں، کیوں کہ 'عرفان' علم سے بالاتر ہے اور رسومی علوم سے بھی بالاتر ہے، لہٰذا تعلیماتِ عرفانی کے مخاطَب صرف تعلیم یافتہ، متجسّس اور باخبر انسان ہیں۔ اب اگر کوئی ایسا شخص جو اِن خصوصیا ت کا حامل ہو، اور ہم سے پوچھے : ”میں آپ کی تعلیمات کیوں حاصل کروں؟ کیا مجھ میں کسی چیز کی کمی ہے؟“"

اِس کے بعد پروفیسر صادق عنقا اِس کے جواب میں یوں فرماتے ہیں:
"کہتے ہیں کہ: عقلمند وہ ہیں جو فائدہ حاصل کرنا جانتے ہیں، اور خود کو نقصان سے بچا سکتے ہیں، اور اِس کے برعکس غافل اور جاہل لوگ نفع و ضرر میں تمیز رکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ لوگوں تک اپنی بات پہنچانے، اپنے فیصلے کرنے، صحیح اور غلط میں فرق کو سمجھنے، ذاتی اور معاشرتی سطح پر اپنے نفع و ضرر میں تمیز کرنے کے لیے ہمیں ایک مستقل اور غیرمتغیّر معیار کی ضرورت ہوتی ہے، مثلًا اگر ہمارے پاس وقت کو، وزن کو یا سکّہٴ رائج الوقت کو ناپنے کے لیے کوئی معیاری پیمانہ موجود نہ ہو تو ہم اپنے معاشرے میں روزمرّہ کے عمومی تعلّقات کے حوالے سے لوگوں سے ذاتی، سماجی، معاشی اور سیاسی سطح پر کوئی رابطہ ہی قائم نہیں کر پائیں گے، لہٰذا ایک مستقل اور غیر متغیّر پیمانہ ضروری ہوتا ہے تاکہ چیزوں کی موزونیت کا پتا چلایا جاسکے۔"

پس وہ مستقل اور غیر متغیّر پیمانہ کون سا ہے، جسے ہم قائم معیار کے طور پر خود اپنے حقیقی وجود کی شناخت اور تشخیص کے لیے استعمال کریں اور اُس کے نتیجے میں فائدے کے حصول اور نقصان سے بچنے کی تدبیر کریں۔ ہم اپنے حقیقی وجود کو کس طرح پہچان سکتے ہیں؟

پروفیسر صادق عنقا فرماتے ہیں:

"اِس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مجھے چاہیے کہ میں 'سچّائی'، یا 'حقیقت' کی تعریف بیان کروں۔ فلسفی کہتے ہیں: "حقیقت کسی شے کا اپنی درست جگہ پر قرار پانا ہے۔" میں کہتا ہوں کہ ہر وہ شے جو موجود ہے، اور غیرمتغیّر اور مستقل ہے تو دراصل وہ 'حقیقت'ہے، لہٰذا اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جو موجود نہیں ہے وہ 'حقیقت' نہیں؛ اور جو موجود ہے، لیکن مستقل نہیں تو وہ بھی 'حقیقت' نہیں۔ انسانی جسم موجود ہے، مگر اُس میں تبدیلی آتی ہے۔ موسم بھی بدل جاتے ہیں، اور فطرت کے اظہار کا طریقہ بھی بدل جاتا ہے۔ محبّتیں، پیار اور الفتیں ہمارے دلوں کی بنیادوں میں سما جاتی ہیں، لیکن پھر یہی کبھی دشمنی اور نفرت میں بھی بدل جاتی ہیں۔ ستارے ایسے چمکتے ہیں جیسے وہ ہمیشہ سقفِ آسمان پر نورافشانی کرتے رہیں گے، مگر وہ بھی ڈوب جاتے ہیں، اور مستقل نہیں رہتے۔ مختصر یہ کہ جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں، اور بہت سی چیزیں جو ہم نہیں دیکھتے،یہ سب وجود رکھتی ہیں، مگر مستقل نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ اللّٰہ کا فرمان اور حکم قطعی حقیقت بن جاتا ہے: ہر شے فانی ہے سواے اُس ذاتِ ابدی کے جو مقدّس، اور رحمن ہے اور جسے ہر شخص اپنے وجود کی اصل، یعنی 'مَیں' کا نام دیتا ہے۔"

'مَیں' ایک مسلسل حقیقت ہے اور اِس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ 'مَیں' جسے زمان و مکان کی کوئی تبدیلی کبھی تبدیل نہیں کرسکتی۔ ہر نفس کو اپنے وجود کی اِس حقیقت کی پہچان اور اِس کی آگہی اِس کی مختلف نشانیوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ ہر فرد کی شخصیت اِس 'مَیں' پر منحصر ہے، اور جب یہ آگہی انسان کے دل پر اترتی ہے، اور اُس کے باطن کو وسعت سے آشنا کرتی ہے تونفس خود کو پا لیتا ہے، اور موت کے حصار سے بچ نکلتا ہے۔

اِس 'مَیں' کے کچھ باطنی مطالبات ہوتے ہیں جو ہر حال میں بالکل درست، غیرمشروط اور 'قطعی' ہوتے ہیں۔ یہ 'مَیں' ایک ایسا مسلسل اور غیرمتغیّر پیمانہ ہے جو ہر ذات میں موجود ہوتا ہے، اِسی لیے میں نے اِس سے قبل آپ سے تذکرہ کیا تھا کہ اگر آپ کا وجدان آپ کی اپنی باطنی آگہی کا نتیجہ ہے تو یہ 'عملی عرفان' کہلائے گا۔ باطن سے بھی میری مراد آپ کے اندر کے اِسی 'مَیں' سے ہے، یعنی 'حقیقت' کا وہ حصّہ جسے آپ خود 'حقیقت' کو پہچانے بغیر سمجھ ہی نہیں سکتے، لہٰذا اصل علم اور عرفان اِسی طرح حاصل ہوتا ہے۔ یہ وہی معنی ہیں جنھیں حق نے اِس طرح بیان فرمایا ہے: اَولِیائی تَحتَ قِبابی لایَعرَفُھُم غَیری۔
(میرے اولیا میرے گنبدوں کے سائے میں ہیں۔ اُنھیں صرف میں ہی پہچان سکتا ہوں، کوئی اَور نہیں۔)  1   "میں" وہ مستقل معیار ہے جو ہمارے لیے فائدے کے حصول اور نقصان سے بچنے کی تدبیر کو ممکن بناتی ہے۔ عرفان ہمیں "میں" کی شناخت اور اُس کے کشف کی کیفیت کی تعلیم دیتا ہے۔ 1


I. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Dawn (Verdugo City, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1991), 23-24.