تاریخ میں تصوّف (2)

دوسرا حصّہ (ساتویں صدی ہجری سے عصرِ حاضر تک، سترھویں صدی عیسوی سے موجودہ زمانے تک۔)

صاحبان عرفان کا ایک پسندیدہ طریقہ یہ رہا ہے کہ انھوں نے حقائق کے بیان اور تعلیم و تربیت کے مقصد سے تمثیلات اور حکایات کا سہارا لیا ہے۔ اِس ضمن میں حکیم نظامی گنجوی (۶۰۶۔۵۳۶ھ۔ق/۱۲۰۹۔۱۱۴۱ء) نے اپنی قابلِ قدر تصنیف ایک طویل رومانی داستان کی صورت بعنوان "ہفت پیکر" پیش کی ہے، اور عشق کی جذبہ آفرینی کو ایک بے مثال روحانی حکایت "لیلٰی و مجنون" کی صورت میں بیان کیا ہے۔1

مغرب میں معروف ترین تمثیلی داستانوں میں سے ایک "ہزار و یک شب" ("الف لیلہ و لیلہ") کے بعد، جس میں علاء الدّین کی داستان بھی شامل ہے، فرید الدین عطّار (متوفّی ۶۱۸ھ۔ق/۱۲۲۰ ء) کی ایک کتاب "منطق الطّیر" ہے۔2

اِس داستان کی تفصیل اِس طرح ہے کہ پرندوں کا ایک گروہ ہُدہُد کی ترغیب اور اُس کی رہنمائی میں سیمرغ، یعنی محبوب کی دیدار کی خاطر بڑے عشق و جذبے اور جوش و خروش سے سفر کا ارادہ کرتا ہے، لیکن اُن میں سے اکثر راستے کے درمیان ہی سے مختلف بہانوں سے واپس ہوجاتے ہیں۔ صرف تیس پرندے سات وادیاں طے کرتے ہوئے آخرِکار سیمرغ کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اُس سے دیدار کا مطالبہ کرتے ہیں اور جواب سنتے ہیں کہ دیدار ممکن نہیں۔ یہ سن کر وہ عشق کے جذبے سے معمور ہو کر اپنے مادّی وجود کے درجے میں مرجاتے ہیں اور جس وقت اپنے باطنی عالَم میں آنکھ کھولتے ہیں تو محبوب کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عظیم سیمرغ، وہ مسلسل جس کی جستجو میں تھے، دراصل وہ خود اپنے وجود کی حقیقت، یعنی 'سی مرغ' (تیس پرندے) تھے، اور خودشناسی کا یہ سفر، دراصل اُن میں پوشیدہ حقیقت کے انکشاف کے لیے باطنی سفر تھا۔۔

یہ داستان ایک تمثیل ہے، جس میں ایک عارف کا نقش ہے، جو اپنے شاگردوں کو شناختِ خدا کی طرف، جو دراصل خود اپنی شناخت سے حاصل ہوتا ہے، ہدایت کرتا ہے اور سات وادیاں دراصل سیر و سلوک کے سات مراتب کو ظاہر کرتی ہیں جو عارف کی ہدایت سے حقیقت کے متلاشی سالک کو منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہیں، تاکہ وہ فنا حاصل کرکے بقا پا سکے۔

دوسرے عارف اور شاعر ،جو مغرب میں زیادہ محبوب ہیں، جلال الدّین رومی (۶۷۲۔۶۰۴ھ۔ق/۱۲۷۳۔۱۲۰۷ء) ہیں جن کا تخلّص مولوی ہے۔ وہ ابتدا میں شریعت کے استاد تھے۔ ۳۷ سال کی عمر میں غیر متوقّع طور پر شمس تبریزی سے ملاقات کی بِنا پر اُن کے وجود میں ایک عظیم انقلاب آیا اور وہ خداوندِعالم کو اپنے پیر، یعنی شمس کے وجود کے آئینے میں پاتے ہیں۔ مثنویٔ معنوی، جو چھہ جلدوں پر مشتمل ہے، پُرکشش عاشقانہ اشعار پر مشتمل ہے، جو اُن کے محبوب کے لیے ہیں۔
ہر آنکہ در کَفَش آید، چون ابر می گرید
ہر آنکہ دُور شد از وی چون برف می فسرد 3
[جو دستِ عشق میں آیا، مثالِ ابروہ برسا
ہوا جو دور اُس سے، ہو گیا وہ برف کا تودہ]
مولوی رومی دو راستوں سے مکتبِ طریقتِ اویسی سے پیوند رکھتے ہیں۔ ایک تو اپنے باپ بہاء الدّین ولد کے واسطے سے، جو معروف عارف شیخ نجم الدّین کبریٰ کے شاگرد تھے اور دوسرے اپنے عشق اور روحانی استاد شمس الدّین تبریزی کے واسطے سے، جو بابا کمال جُندی کے شاگرد تھے اور جندی بھی شیخ نجم الدّین کبریٰ کے شاگرد تھے۔
شیخ نجم الدّین کبریٰ سلسلۂ اقطابِ اویسی کے سولھویں قطب ہیں

دوسرے عالی قدر عارف شیخ علاء الدین سمنانی ( ۷۳۶۔۶۵۹ھ۔ق/۱۳۳۵۔۱۲۶۱ء) ہیں۔ انھوں نے دربار کو ترک کیا اور جان و مال کو خدا کے نام وقف کر دیا۔ آپ فرماتے ہیں: "جس وقت میں نے عشق کے پھول چُنے تو میری عقل کی آنکھ سیکڑوں کانٹوں سے زخمی ہوگئی۔ 4 " سمنانی نے نظم و نثر میں بہت ساری کتابیں تحریر کی ہیں۔
امیر سیّد علی ہمدانی (۷۸۶۔۷۱۳ھ۔ق/۱۳۸۴۔۱۳۱۳ء) ایک اور عارف ہیں جو اپنے مقام و مرتبے کی بلندی کی وجہ سے "علیٔ ثانی" مشہور ہوئے۔ اُنھوں نے اپنے ۷۰۰ پیروکاروں کے ساتھ کشمیر کا سفر کیا اور موجودہ بلتستان کے ایک گاؤں شِگر میں خانقاہ کی بنیاد رکھی۔۔

شمس الدّین حافظ شیرازی ( متوفّی۷۹۱ھ۔ ق / ۱۳۸۹ء ) ایران کے مشہور عارف اور شاعر ہیں، جنھوں نےدنیا کے شعرا اور فلاسفہ پر شان دار اثرات ڈالے۔ جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے آپ کے چاہنے والوں میں سے ہیں۔ حافظ شیرازی بھی مکتبِ اویسی کے شاگردوں میں سے ایک ہیں۔ آپ شیخ محمود عطّار شیرازی کے شاگرد ہیں جو پیر گُل رنگ کے مریدوں میں سے تھے۔

پندرھویں صدی سے اب تک عالی قدر عرفا، مثلًا سیّد محمّد نور بخش (متوفّی ۸۶۹ ھ۔ ق / ۱۴۶۴ء)، شاہ قاسم فیض بخش (متوفّی ۹۲۷ھ۔ ق/۱۵۲۰ء)، درویش محمد مُذہّب کارندہی (متوفّی۱۰۳۷ھ۔ ق / ۱۶۲۷ء)، سیّد عبدالوہاب نائینی (متوفّی ۱۲۱۲ھ۔ ق/ ۱۷۹۸ء)، حاج محمّد حسن کوزہ کنانی (متوفّی ۱۲۵۰ھ۔ ق / ۱۸۳۴ء) اور حضرت آقا عبدالقادر جہرمی (متوفّی ۱۳۰۲ ھ۔ ق / ۱۸۸۴ء) نےعرصۂ وجود میں قدم رکھا۔

حضرت جلال الدّین علی میر ابوالفضل عنقا (۱۳۳۹۔۱۲۶۶ ھ۔ ق / ۱۹۱۵۔۱۸۴۹ء) سلسلۂ اویسی کے اقطاب کے سلسلے میں اُنتالیسویں پیر ہیں۔

حضرت میر قطب الدّین محمّد عنقا( ۱۳۴۱۔۱۲۶۶ھ۔ ق / ۱۹۶۲۔۱۸۸۷ء)

حضرت شاہ مقصود صادق عنقا (۱۳۵۹۔۱۲۹۴ھ۔ ق / ۱۹۸۰۔۱۹۱۶ء )

حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا ( پیرِ طریقتِ مکتبِ اویسیٔ شاہ مقصودی)®۔


I. Nezami, The Story of the Seven Princesses (London: Bruno Cassirer, 1976)
2. Farid ud-Din Attar, The Conference of the Birds (NY: Penguin, 1984)
3. Jalaleddin Rumi, The Mathnawi of Jalaleddin Rumi (London: E.J. W. Gibb Memorial Trust,1926-1982)
4. Anmarie Schimmel, Mystical Dimensions of Islam (University of North Carolina Press, 1975)