خانقاہ، مکتب و مدرسۂ عرفان
خانقاہ یا خانۂ گاہ یعنی خانۂ حال و حضور
گاہ، وہ لحظۂ واقعی ہے کہ انسان کو ظاہرًا خواہ باطنًا دائم مراقبہ و حضور اور اُس کی حفاظت میں رہنا چاہیے، تا کہ ہر " آن" اِس حیاتِ حقیقی کے باعث، جہانِ مادّی کی بے مصرف آوارگیوں میں مصروف نہ رہے اور آخرِ کار علم ، عشق اور ہستی کے آسمان کے دروازے راہ کے حقیقی سالک پر کھل جائیں۔ ۔
راہ چلنے والا سالک ہمیشہ اپنی جمعیّت میں ، نہ کہ لوگوں کے تفرقوں میں، سیر کرتا ہے، تا کہ ایک لحظے کے لیے بھی ہستی سے جدا نہ رہے۔
کسی بھی علم کے حصول کے لیے معلّم اور اُس درس کے مدرسے کا رُخ کرنا چاہیے۔ مکتب و مدرسۂ عرفان کا نام خانقاہ ہے۔
پرانے وقتوں میں جب کوئی اپنی حقیقت کا متلاشی ہوتا تھا، خانقاہ کا رُخ کرتا تھا۔ اُسے پتا چلتا تھا کہ روزمرّہ زندگی اُس کی اصل چاہت، یعنی انسان کی حقیقت کی جُست جُو اور کشف کی ذمّے دار نہیں۔ وہ معاشرے میں متعارف نام و نسب کو ایک طرف رکھ کر،کمالِ فروتنی و طلب سے خانقاہ کا رُخ کرتا تھا تاکہ حاضر اجتماع کے ساتھ، خاص طور پر ذکر کے ہنگام میں، حضور در حال اور بےزمانی کا تجربہ کرسکے۔
آدابِ خانقاہ
خانقاہ کے اپنے خاص آداب و شرائط ہیں۔ اجتماع کے معیارات وہاں معتبر نہیں اور خانقاہ کے محیط کی یک جائی میں بیرونی دُنیا کے سب رنگ نقش برآب ہیں۔
خانقاہ میں داخل ہوتے وقت فرد اپنے جوتے اُتار دیتا ہے اور تمام تعلّقات کے ساتھ مادّی دُنیا کا گردوغبار خود سے الگ کر دیتا ہے۔ وہ خانقاہ میں حضورِ کامل سے اپنے کام پر توجّہ دیتا ہے۔
نظم، پایۂ راہِ سالک ہے،اِسی لیے وہ اپنی ظاہری نظم کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ فرد سادہ اور بے نقش لباس پہنتا ہے، یوں وہ نقوش کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے تا کہ بلندتر راز کو دریافت کر سکے۔ کوئی ناہم آہنگی اُسے خود میں مشغول نہیں کرتی۔ اُس کا لباس سفید ہے،کیوں کہ اُس کا ہدف تمام آلودگیوں سے پاک ہونا ہے۔باہر اور اندر کی آشفتگیٔ خاطر و پریشانی سے سکوت اُسے آرام و سکونِ واقعی سے نزدیک تر کر دیتی ہے۔
خانقاہ اُن اصولی مشقوں کے لیے محیطِ مناسب ہے جو سالک کو اپنی لالچوں اور بے ثباتیوں سے نجات دیتی ہیں۔ وہ اِس محیط میں خود کو بناتا ہے تاکہ باہر بھی اِسی طور حضور پائے اور روزمرّہ زندگی اور بیرونی دُنیا میں کام میں اپنے آرام اور صفاے خاطر کی حفاظت کرسکے۔ تب وہ "فرزندِ وقتِ خود" ہو جاتا ہے اور خانقاہ (خانۂ گاہ = خانۂ حال ) کے حقیقی معنوں تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
|