تاریخِ تصوّف (1)

حصّۂ اوّل ( پہلی صدی سے چھٹی صدی ہجری تک/ساتویں صدی ہجری سے بارھویں ہجری تک)

تصوّف 1400 سال قدامت کی حامل ہے۔ اسلام کے مکرّم پیامبر حضرت محمّدؐ کی وفات کے بعد پہلی دو صدیوں کے دوران بہت سارے عرفا اہلِ باطن اور اہلِ سِرّ کے نام سے معروف تھے۔ انھی میں سے ایک حضرت ابراہیم ادہم (متوفّٰی 161ہجری قمری / 777عیسوی) تھے۔ یہ ایک شہزادے تھے، مگر اپنے تاج و تختِ شاہی اور اپنے تمام قبیلے والوں کو چھوڑ کر اہلِ باطن کے عرفانی اسرار کی جستجو میں لگ گئے۔
اس زمانے کی ایک خاتون جن کا نام رابعۂ عدویّہ (متوفّیہ 135ھ۔ق / 752 ء) تھیں، جن کی تعلیمات اور طرزِ زندگی اُن کے باطنی خلوص اور الہٰی پاک عشق کا ایک واضح نمونہ تھی۔ ¹

یورپ کے پورے تاریک دور میں اسلامی علوم اور ادبیات اپنے عروج پر تھے اور طالبِ علم عرفا اپنے عالی تحقیقات اور نئے انکشافات کے لیے سائنس اور ریاضی کے شعبوں میں منہمک تھے، حالاں کہ اسی زمانے میں یورپ کے دانشور جب سائنسی تحقیقات کرنے لگتے تھے تو کفر وارتداد کا فتویٰ لگا کر ان پر مقدّمے قائم کیے جاتے تھے۔ اس زمانے میں غنی ترین کلیسا کے کتاب خانوں میں زیادہ سے زیادہ 300 سے 400 تک کتابیں ہوتی تھیں۔ اس وقت گرینیڈا کے اسلامی کتب خانے میں ایک لاکھ پانچ ہزار کتابیں موجود تھیں۔

مسلمان، عیسائی اور یہودی علما میں روابط وسیع حد تک رائج تھے۔ خصوصًا ہسپانیہ میں، جو 711ء تا 1492ء اسلام کے زیرِ تسلّط تھا، مذہبی آزادی کو صلیبی جنگوں کے دوران بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ عرفانی تعلیمات ہسپانیہ کے ذریعے مغربی دُنیا میں متعارف کرائی گئیں اور اپنے اندر جھانکنے اور باطنی دُنیا (mysticism) کی بنیاد عیسائیت میں پڑگئی۔ نتیجتًا گیارھویں صدی عیسوی میں چند افراد ٹریسا، کیٹرِن مقدّس، میسر ا ک ہارٹ، رچرڈ رُل جیسے روشن ضمیر افراد اس کا نمونہ تھے۔

چند صدیوں کے دوران عرفا ن نے وسعت پائی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں عالی قدر عارف شقیق بلخی (متوفّٰی174یا 195ھ ۔ق / 789 یا 810ء) نے طبیعیات اور مابعدالطبیعیات کے دانشمند کی حیثیت سے شہرت پائی2۔ شیخ ابوتراب نخشبی (متوفّٰی 245ہجری قمری مطابق 859 عیسوی) اپنے معجزات کی بنا پر معروف تھے۔اسی طرح نویں صدی عیسوی میں کئی ایک معروف عارف زندہ تھے۔ اُن میں سے مصر میں ذوالنّون، عراق میں محاسبی، ایران میں بایزیدبسطامی کے اشعار اور کتب کا چرچا تھا۔ اس طرح اہلِ بغداد میں سے کرخی اس بات کے معتقد تھے کہ عشق سیکھی جانے والی چیز نہیں، بل کہ خداوندِ عالم کی طرف سے ایک موہبت ہے۔

چند صدیوں میں بہت سارے عرفا کو رجعت پسندوں کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی۔ انھی میں سے ایک منصور حلّاج (مقتول 921ء) جو"انا الحق" کہنے پر کفر کے جرم میں قتل کیا گیا۔ حق کی یگانگی پر حلّاج کی یہ شہادت دراصل اسلامی تعلیمات کا اصل جوہر تھی، لیکن شریعت پر عمل پیرا رہنے والے مسلمانوں نے بھی آج تک اس کے حقیقی معنوں کا ادراک نہیں کیا۔

مغرب میں بعض عرفا کو کاملًا پہچانا گیا تھا، جیسے ابنِ رشد (متوفّٰی 595ھ۔ ق / 1198ء) جو Averroes کے نام سے مشہور تھے۔ وہ دربار میں معالج اور اسی طرح ایک عظیم فلسفی بھی تھے۔
ایک اور عارف ابنِ عربی ہیں۔ پلاسیوس (Palacios) کے مطابق دانتے کی "ڈوائن کامیڈی" کی بنیاد اصل میں ابنِ عربی (560۔ 638ھ ق / 1165 ۔ 1240ء) کی کتب پر تھی۔ ابنِ =-قت کے ساتھ معاونت کرتے تھے, لیکن اسی دوران انصاری نامی ایک اَور صوفی حکومتِ وقت کے ظلم و ستم میں گرفتار تھے۔ غزالی یہ ظلم و ستم برداشت نہ کرسکے، اُن کے صبر کا پیمانہ لب ریز ہوگیا اور وہ اپنی تدریسی مصروفیات ترک کرکے اپنی روحانی زندگی گوشہ نشینی میں گزارنے لگے۔
غزالی اپنی تعلیمات میں باطنی پہلوؤں اور تصوّف کو شریعت اور اس کے قوانین سے ملا کر الٰھیات کے ماہرترین اور طاقتور ترین افراد میں سے ایک کی حیثیت سے مسیحی افکار پر اثرانداز ہوئے۔ 3

بارھویں صدی عیسوی میں روزبہان (522۔606ھ ق/1127۔1209 ء) نے 100 سے زیادہ کتابیں اپنے بعد چھوڑیں۔ 4
عالی قدر عارف شیخ نجم الدین کبرٰی (540۔618ھ۔ق /1145۔1220ء) نے ممتاز اور نمایاں شاگرد، مثلًا عطّار، شیخ علی لالا غزنوی، سیف الدّین باخزری، اور دوسرے چودہ افراد پیش کیے جو اپنے زمانے کے مشاہیر میں سے تھے۔ قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ مولانا رومی اُن کے چوتھے درجے کے شاگرد ہیں۔ 5
شیخ نجم الدّین کبرٰی اور اُن کی کتب تجربات اور باطنی ایجادات اور مقاماتِ سیر و سلوک کی بِنا پر بڑی قدر و قیمت کی حامل ہیں۔ این میری شِمل اپنی کتاب ''اسلام کے باطنی پہلو" میں لکھتی ہیں کہ: اِس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ نجم الدّین کبرٰی اپنے باطنی سفر میں ہستی کی گہرائیوں تک سفر کر چکے ہیں اور مقاماتِ باطنی کا مشاہدہ اور دریافت کر چکے ہیں۔ آپ دوسرے تمام عارفوں کے ہم عقیدہ ہیں کہ انسان ایک چھوٹے وجود کے عنوان سے، یا دوسرے الفاظ میں، عالمِ اصغر (microcosm) کی حیثیت سے، ہستی یا عالمِ اکبر (macrocosm) میں جو کچھ ہے، اُسے اپنے باطن میں سموئے ہوئے ہے۔ 6


I. Margaret Smith, Rabi’a the Mystic and Her Fellow–Saints in Islam (Cambridge, New York: Cambridge University Press, 1984)
2. Annmarie Schimmel, Mystical Dimensions of Islam (Chapel Hill: University of North Carolina Press, 1975)
3. Al-Ghazzali. The Alchemy of Happiness (London: Octagon, 1980) 4. Annmarie Schimmel, Mystical Dimensions of Islam (Chapel Hill: University of North Carolina Press, 1975)
5. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Dawn (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1999), 12.
6. Annmarie Schimmel, Mystical Dimensions of Islam (Chapel Hill: University of North Carolina Press, 1975), 255.