فقر و ناداریہ

کتاب “الرّسائل”سے اقتباس: “سراج الہدٰی” 1

از حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا، پیرِاویسی

پیغمبرِ اکرم حضرت محمد نے فرمایا ہے: “فقر، غیب کی سرزمین ہے۔”


جاننا چاہیے کہ فقر کا مطلب ناداری اور نامرادی ہے ۔ یہ منصب طلب و ارادے کے سبب ملتا ہے۔ یہ اپنے نفس کی آزادی کا نام ہے جو صبر، اطاعت اور اپنے رب کے حضور اپنے قلب کو جھکا دینے سے حاصل ہوتا ہے۔ فقر کی کنجی جستجو اور عبادت ہے۔ فقر الله کا خزانہ ہے اور فقیر کا دل خزینہٴ گراں مایہ۔

فقر کا اصول ہے “الفت” اور اُس کی حقیقت ہے فنا۔ حضرت محمدﷺ کی سرپرستی پر ایمان کی اوّلین منزل فقر و فنا اور آخری منزل وصال و بقا ہے۔ فقر، عبادت کی حقیقت ہے اور فقیر کی تنہائی گنجینہٴ قناعت، فقیر کی رہ گذر توکّل اور اپنے رب پر ایمان و یقیں، فقیر کی ہر سانس ذکرِ الہٰی، اُس کا لباس منکشف کیے جانے والے رازوں کی پردہ داری، اُس کا مقصد الله، اُس کی سواری ایک دلِ آگاہ، اُس کی خدمت علم اور اُس کی کوشش فرماں برداری ہے۔

درویشی کا راستہ مخفی ہے اور اُس کی حقیقت اُس سے بھی زیادہ پوشیدہ۔ اُس کا کوئی بازار نہیں اور نہ اُس کا کوئی ظاہری بدلہ ہے۔ خود فقیر کے دل کوفقر کی خبر ہوتی ہے، کسی اَور کو نہیں ہوتی۔

شرک کا مطلب ہے “دوئی” اور اِس سے مراد ہے: “میں” اور “تُو”۔ فقیر گمان کی دنیا کا خاتمہ کر دیتا ہے اور دنیاے مظاہر سے گزر کر اپنی ہستی کی فنا کے ذریعے اپنے معبود سے واصل ہونے کی جدّوجہد کرتا ہے۔ عارف و صوفی وہ ہے جس نے اپنا دل اپنے رب کو دے رکھا ہے اور اپنا جسم خلقِ خدا کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔ فقیر اپنے دل کے نور اور اپنے طور طریقوں کی بلندیوں کی دریافت کی خاطر انتہائی جاں فشانی سے کام لیتا ہے۔ جو سچّا فقیر ہوتا ہے، وہ کاہلی، بے کاری اورسطحی باتوں سے گریز کرتا ہے۔ وہ اپنے دل کو انسانوں کی طرف سے اپنے رب کی طرف موڑ دیتا ہے۔

اُس دن کا پیمان یاد کرو جس کا نہ کوئی آغاز اور نہ کوئی اختتام ،کہ آج کا دن ہی فقر کا دن ہے۔

لہٰذا ہمّت کرو اور اُٹھ کھڑے ہواور اپنے عہد کو پورا کرو، اپنے تفرقوں کو مٹا کر جمعیت میں ظاہر ہو، اپنی مضبوط رسّی کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو اور اپنے عہد نامے کی نگہ داری کرو۔ اپنے زیاں کار نفس کی سرکشی سے بچو اور جنّت کی قربت حاصل کرلو اور اُس خورشیدِ تاباں کو خرید لو۔

اُٹھ کھڑے ہو اور محبوب کی رضا کی خاطر سعی کرو اور نفس کے جاہل رقیب کی دی ہوئی ترغیبات کو کوئی اہمیت نہ دو۔ اپنے قلب کی گہرائیوں سے اپنے رب سے سرگوشی کیا کرو۔ بھلا ہمیں اَور کہاں آرام مل سکے گا، یقینًا وہ رب قلب کے اسرار میں اور سماعت کی گہرائیوں اور نگاہوں ہی میں قیام کرتا ہے۔ وہ تمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ تم سے قریب ہے اور ہر چھپی ہوئی چیز کو دیکھنے کی قدرت رکھتا ہے۔

سمجھ لو کہ اپنے ذاتی عقائد اور ترجیحات کے مطابق محض رسومِ عبادات کو پورا کرلینا ہی اصل عبادت نہیں ہے۔ اِس سے تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور نہ یہ تمھارے لیے باعثِ نجات ہوگا۔ ایک مومن اور روشن خیال سالک کے لیے، جس نے اپنے باطن میں حق کو پہچان لیا، اصل عبادت یہ ہے کہ اُس کا قلب خود اُسے اِس راہ

(خدا کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ عارف وہ ہے جو اُس کے احکام اور نبیﷺ کی سنّت پر سب سے زیادہ عمل کرتاہے۔کے راہ نما کی واضح پہچان کرا دے۔


I. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Rasa’el- Poverty and Annihilation (Tehran, Iran: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1975), 11-13.