پیر، معلّمِ وجود، نورِ ہدایت

"وہی تو ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں نازل کرتا ہے ، تا کہ تمھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ اور بلا شبہ اللہ تم پر نہایت ہی شفیق (اور) مہربان ہے۔" قرآن کریم ـ (سورۂ57:حدید، آیت9)


سالک اپنے سلوک کا راستہ طے کرنے کے لیے ایک ایسے معلّمِ دانا، ہادی اور پیر کے وجود کا محتاج ہے جو اللہ کے ہاں سے اُس کی تربیت کے لیے مقرّر کیا گیا ہو، تا کہ وہ اُس کی ہدایت میں مختلف مدارج طے کرتے ہوئے آگے بڑھ سکے اور خود کو ہلاکتوں سے بچا سکے، کیوں کہ معلّم کے بغیر علم کوئی فائدہ نہیں دیتا اور معشوق کے بغیر عشق میں کوئی روشنی نہیں ہوتی اور معبود کے وجود کے بغیر عبادات کا کوئی مقصد و مقصود نہیں ہوتا۔

پیامبرِ مکرّم حضور اکرم (ص) فرماتے ہیں: "کسی عالِم کے ساتھ مجالست اور ہم نشینی اختیار مت کرو، مگر یہ کہ وہ تمھیں پانچ چیزوں سے پانچ چیزوں کی طرف دعوت دے: شک سے یقین کی طرف ، تکبّر سے فروتنی کی طرف، دشمنی سے خیرخواہی کی طرف، رِیا سے اخلاص کی طرف، دُنیا کی محبّت سے زہد کی طرف۔"

کسی کامل مکمّل استاد کی پیروی سلوک کے بنیادی شرائط میں سے ہے جس کے وجود کے بغیر سالک اپنے مقصد و مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔ شیخ صفی الدّین اردبیلی قدس اللہ سرّہُ العزیز فرماتے ہیں: "جاننا چاہیے کہ مردانِ حق کی صحبت اختیار کیے بغیر سالکوں کے دل سے پردے نہیں ہٹ سکتے۔ ایساطالبِ علم، جو اپنے وہم و خیال کے مطابق سفر طے کرتا ہے، اپنی خودی کے سراب میں گم ہو جائے گا۔ سچّے سالکوں کے دل کی زمین رحمتِ حق کی بارش اور پِیروں کے کلام کی تلقین سے سیراب ہوتی ہے اور حیاتِ جاودانی حاصل کرتی ہے ۔ جسم کی غذا پھل اور عناصر ہیں اور روح کی غذا روشن ضمیر اہلِ دل کی خدمت اور صحبت ہے، مگر ایسی خدمت اور صحبت کا حاصل، جو بغیر عشق و اِرادت کے ہو ، کچھ بھی نہیں ہوتا، اور کہا گیا ہے کہ سچّے مرید کی تسلیم حقّانی مرشد کے سامنے (کالمیّت فی الید الغسّال) غسّال کے ہاتھوں میں میّت جیسی ہے تاکہ شیخ کی تربیت، ثمرہ اور ہدایات، نفسانی مداخلت کی بنا پر فاسد نہ ہوجائے۔"

منقول ہے کہ بایزید بسطامی حضرت امام جعفر بن محمّد الصّادق کی خدمت میں تھے۔ ایک دن آپ نے فرمایا کہ تمھارے سر کے اوپر طاقچے میں ایک کتاب ہے، اُسے لے آؤ۔ بایزید نے مضطرب ہو کر عرض کیا: طاقچہ کہاں ہے؟ امام نے فرمایا: اِتنی مدّت سے تم ہمارے پاس ہو اور تمھیں یہ نہیں معلوم کہ طاقچہ کہاں ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ہم تو آپ ہی میں غرق ہیں۔ نہ طاقچہ دیکھا ہے اور نہ ہی ہمیں معلوم ہے۔

معلّمِ روحانی، جِسے 'پیر'، یعنی 'راستے کا چراغ' کہا جاتا ہے، ایک صابر ہادی اور رہنما ہے، جو تمام تاریکیوں کو اجالے میں تبدیل کرنے والا ہے، تاکہ سچّا سالک اُس کے نور کی برکت سے اللہ کی راہ بازیاب کرے اور اپنے وجود کی حقیقت پہچان سکے


I- Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Sirâj al-Huda; Poverty and Annihilation Al-Rasâ'el (Tehran, Iran: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1975), 91.