باطنی جہانوں کا سفر

عرفانی تعلیمات کے مجموعے "تصوّف و حکمت" سے ایک انتخاب[1]

انسان ایک وسیع الاطراف مجموعہ ہے جسمانی، آسمانی(سماوی)، عقلی اور منوّر اجسام کا۔ جسمانی بدن انسانی وجود کا سطحی ترین پہلو ہوتا ہے۔ اعلٰی اور غیر مرئی(مخفی) اجسام انسان کی مقاماتِ اعلٰی تک رسائی کو ممکن بناتے ہیں۔

سالک اپنی توجّہ اور عمل کے بقدر اپنے پیر اور استاد کی تعلیمات پر، جن میں نماز و روزہ، تمرکز(مراقبہ) اور ذکر وغیرہ شامل ہیں، عمل کر کے قلب اور روح کی اندرونی دنیاؤں میں داخل ہونے کے قابل بن جاتا ہے اور جان کے مخفی جہان میں سیر و سلوک شروع ہوجاتا ہے۔

طبعی جسم سے ماورا پہلی تہہ، جس سے سالک آشنا ہوتا ہے، سماوی یا ایتھری جسم ہے جو بدنِ جسمانی یا عنصری کے لیے روحانی قالب ہے۔ اِس روحانی بدن میں ایک روحانی قلب ہے، جو جسمانی قلب کے پیچھے پوشیدہ ہے۔ اِسے تصوّف کی زبان میں قلبِ سِرّی یا قلبِ مخفی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ براہِ راست وجود کی شفابخش قدرتوں سے متّصل ہوتا ہے۔ روحانی قلب ایک روحانی قوّت پیدا کرتا ہے، جو ایک قالب کی تشکیل کا باعث بن جاتی ہے اور جسمانی بدن کا احاطہ کرتی ہے۔ ایتھری یا سماوی بدن آشکار اور قابلِ لمس محیطِ سے موافقت رکھتا ہے۔ یہ قالب جسم میں برقی رَو کے بہاو کا سرچشمہ قرار پاتا ہے، جو قلبِ روحانی سے قلبِ جسمانی میں منتقل ہوتی ہے۔ قلب سے اِس قوّت کا خاتمہ اُس کی دھڑکن بند ہو جانے کا سبب بنتا ہے۔ روح کے بدن سے جدا ہونے کے دو سے تین دن کے اندر ایتھری جسم غائب ہوجاتا ہے۔

دوسرا جسم: مثالی جسم ہے، اِسے نجمی یا ملکوتی جسم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جسم بہت لطیف اور سماوی جسم سے بالا واقع ہے۔ اِس کی ابتدا آسمانی ملکوتی عالم میں ہوتی ہے اور یہ عالمِ ناسوت (روحانی دنیا) سے رابطے میں ہے۔

تیسرا جسم: عقلی جسم ہے۔ یہ جسم بنیادی طور پر شفّاف، نورانی اور جسمِ مثالی سے لطیف تر ہے اور انسان کے عقلی و فکری ارتقا کے درجۂ تکمیل کی علامت ہے۔ عالمِ جبروت اور جسمِ عقلی کی کیفیت کے بیان میں اشارہ ہوچکا ہے کہ انبیا، عرفا و اولیا، صاحبانِ فضائل اور سالکانِ راہِ معرفت کی ارواح اپنے حاصل کیے ہوئے کمالات و ہدایات کو رُوے زمیں کے نفوس میں الہام کرتے ہیں اور تازہ وارد ارواح کی دست گیری کے لیے اِس دنیا کے اوپر اور نیچے کے طبقات میں اپنے فرائض کی ذمّے داری سنبھال لیتے ہیں۔ اِن پاک سرشت رہنماؤں اور مربّیوں کا حقیقی مسکن عالمِ جبروت میں ہے اور اُسی جگہ سے وہ فضیلت و حقیقت کے طالبان اور سائنس، فلسفے، معرفت، اور فنونِ لطیفہ کے سالکان کے باطن میں فیوض کے انوار، نورانی و عرفانی افکار اور الٰہی نظریوں کو الہام کرتے ہیں۔

جسمِ چہارم: نورانی جسم ہے، جسے بعض اوقات 'ہا لۂ آتشی' کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ عالمِ لاہوت میں نفسِ ناطقہ اِسی جسم کے ذریعے عروج کرتا ہے، اور چوں کہ انسانی نفس عاوِ ہمّتی، بے حد صبر اور تدریجی تکمیل سے اِس مقام تک پہنچ پاتا ہے؛ یہ مقام ہر بے ہمّت و بے حوصلہ ہوسناک کو میسّر نہیں ہو سکتا۔ نفوسِ ناطقہ مخلوق کی خدمت اور ہدایت کے ہر درجے پر فداکاری کے ساتھ اپنے ہدف کو پا لینے کے لیے جس قدر خواہشمند ہوتے ہیں، اُسی نسبت سے اُن کے عقلی جسم کے اطراف میں چاند کے ہالے کی مانند نور کا ایک پردہ تشکیل پاتا ہے۔ یہ وہی نورانی ہالہ ہے جو انبیا و اَئمّہ کے سروں کے گرد و پیش موجود رہا ہے۔

ہر حقیقی تعلیمی نظام کا مقصد جہالت کو دور کرنا ہے۔ تصوّف کے اصول، جو اسلام کے بنیادی اصول ہیں، دراصل ان ہدایات کا مجموعہ ہیں، جو کسی سالک کو خودشناسی اور حقیقت کی دریافت میں بھرپور مدد فراہم کرتے ہیں، اور نتیجتًا اُسے آزادی، استحکام اور علم و دانش کی دولت عطا کر دیتے ہیں۔ یہ وہ نتائج ہیں جو محض اندھی تقلید، مذہبی رسومات، توہّم، یا اُن نصیحتوں سے نہیں حاصل کیے جا سکتے ہیں جو ہمیں اپنے معاشرے، تہذیب اور آبا و اجداد سے ملی ہوں۔

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تمام "مذہبی آداب" کی طرح، تصوّف کی تعلیمات میں بھی یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے کہ اِنھیں ادنٰی رسوم تک محدود کر دیا گیا ہے، جو اپنی واقعیت سے خالی اور لوگوں کے تصوّرات کے لیے قابلِ قبول ہیں۔
حضرت محمّد(ص) نے فرمایا ہے: "ایمان صرف تمنّاؤں کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ دل میں جگہ پاتا ہے اور عمل سے اِس کی تصدیق ہوتی ہے۔"


I. Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Sufism and Wisdom (Washington, D.C: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1996), 26-27.