علم کے شہر کا دروازہ

اَنَا مَدینَۃُ العِلم وَ عَلیٌّ بابُہا.

میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے۔
پیامبراکرم حضرت محمد(ص)


چنین گفتۂ پاک پیغمبر است ; کہ من شہر علم و علی ہم در است علم کے شہر میں داخل ہونے اور دانشِ ازلی کے حصول اور دستیابی کے لیے کسی دانا معلّم اور ہادی کا موجود ہونا ضروری ہے، کہ خداوند کی طرف سے سالک کے دل میں نورانیت کے ذریعے اُس کا تعارف ہو چکا ہو۔۔

خداوند قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:(سورۂ ۵۷/حدید، آیت ۹)

ھُوَ الّذی یُنَزّلُ عَلی عَبدِہِ آیاتٍ بیّناتٍ لِیُخرِجَکُم مِنَ الظّلُماتِ اِلَی النّورِ.
«وہی تو ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل کرتا ہے تاکہ وہ تمھیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لائے۔»

مولا امیرالمؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں:

ایمان دل میں ایک نورانی نقطے کی صورت پیدا ہوتا ہے اور جس قدر ایمان بڑھتا جاتا ہے، وہ نورانی نقطہ بھی پھیلتا جاتا ہے۔

ہر انسان وجودی توازن اور ہم آہنگی برقرار رکھتے ہوئے یہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنے وجود کے پست ترین، یعنی ثقیل مادّی مرتبے سے لطیف اور پوشیدہ روحانی مراتب تک عروج پائے۔ اِسی ہم آہنگی میں ہے کہ انسان گھاٹیوں، جسموں اور وجودی برزخوں کو طے کرتا ہے تاکہ جسم، نفس اور روح ایک حقیقی توازن میں دُنیا کا علم پیش کریں۔ پیغمبر، اولیا اور عرفا ایسے عروج کے اعلا نمونے ہیں۔ ایسے توازن اور ہم آہنگی کا حصول عارف ہی مہیّا کرسکتا ہے۔ عارف حقیقت کی شناخت اور ہستی کے جوہر کو خودشناسی کے طریقے سے، اور انسان کا لامتناہی اور ملکوتی پہلو اور قلب میں پوشیدہ اَسرار جانتا ہے۔

اِس لیے مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی کی تعلیمات کی بنا پر انسانی بدن ۱۳ مقناطیسی مراکز کا حامل ہے اور یہ مراکز سلامتی اور اِسی طرح اُس کی زندگی کو مابعدالطبیعیاتی اور روحانیت میں ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ اِن میں سے اہم ترین مرکز کی جگہ قلب میں ہے۔ اکتالیسویں پیرِ طریقت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا نے قلب میں موجود سرچشمۂ حیات کو "عقدۂ حیاتیٔ قلب،" اور دوسرے الفاظ میں "مَیں" کا نام دیا ہے۔

سرچشمۂ حیات کی جگہ قلب میں ہے اور یہ بشری روحانی دنیا اور ملکوتِ خداوند میں داخلےکا دروازہ ہے۔

«اے انسان! اپنے ملکوتی پیکر میں واقع دل کے تیسرے نقطے میں نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں حقیقت کو تلاش کر جو لطیف و ثقیل دونوں جہانوں کا سنگم ہے۔ قلب میں پایا جانے والا سرچشمۂ حیات علم و یقین کا نور، بلکہ بجاے خود عینِ علم ہے۔ چوں کہ وہ سب جانتا ہے، تصوّر میں آنے والی ہر صورت اُسی کی بدولت ہے ۔ ہر تعیّن اُسی سے متعیّن ہے۔ وہ تمام اشیا کی روح بھی ہے اور جسد بھی۔ہر شے کی اُسی کے ہاتھوں تکمیل ہوتی ہے۔»1

مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی کے موجودہ پیر مولانا صلاح الدّین علی نادر عنقا فرماتے ہیں:

«سالک کی وجودی حقیقت دوسرے الفاظ میں "مَیں" کا کشف، یقین، حرّیت اور صلح و سکون کی سوغات دیتا ہے۔ یقین کشف و شہود کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ دوسرےالفاظ میں یہ علم و دانش سے حاصل ہوتا ہے۔»


I. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Message from the Soul reprinted in The Mystery of Humanity: Tranquility and Survival (Lanham, MD: University Press of America, 1996), 63-64.
2. Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Theory "I": The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002)