عبادت کی حقیقت

اہلِ باطن کے نزدیک خدمت کے ارکان چار ہیں:

حق تعالٰی کے حضور عبادت
موحّد دل
سچّی زبان
عملِ صالح

تم خدا کی بندگی مزدوروں کی طرح اجرت کی شرط پر نہ کرنا۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السّلام فرماتے ہیں: "میں تیری عبادت نہ تو جنّت کے شوق میں اور نہ ہی آگ کے خوف سے کرتا ہوں، بل کہ میں نے تجھے عبادت اور پرستش کے قابل پایا، اُس کے بعد میں نے تیری عبادت کی۔"

عارف کامل شیخ بہاء الدیّن محمّد عاملی (1030–953ہجری/ 1620–1545عیسوی ) نے، جو شیخ محمّد مومن سبزواری کے مریدوں میں سے تھے، اِس مفہوم کو یوں بیان فرمایا ہے:

دین کو دیتے ہیں وہ اپنے گھٹا
چاہتے ہیں جو عبادت کا صِلا
ہاں، حدیـثِ 'مـٰاعَـبَـدْتَـکْ' اے بشر
از کلامِ شاہِ مرداں یاد کر
ہو نظر اجرِ عمل پر، کوری* ہے
طمع طاعت میں رہے، مزدوری ہے
اُجرتی خادم ہے یہ سارا گروہ
اُجرتی خدمت نہیں رکھتی شکوہ
گر کہو عابد اُسے، یہ ہے خطا
کیا ہے عابد، حق سے جو چاہے صِلا

اندھاپن*

حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا فرماتے ہیں: انسان کے پاس ایک دل ہے، جو حق تعالٰی کی توحید سے مخصوص ہے، اور ایک زبان ہے، جو شہادت سے مخصوص ہے اور اعضا و جوارح ہیں، جو عبادت سے مخصوص ہیں، اور اسے عبادت میں چار چیزوں کی رعایت رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں:

ایسا علم، جو اُسے خطا سے روکے۔
ایسا ذکر، جو اُس کا مونس و ہم نشیں بنے۔
ایسا پاکیزہ اور مستقیم فکر، جو سلوک کے سفر میں اُس کا ہم قدم رہے۔
ایسا زہد، جو اسے ماسوا اللہ کے علاوہ سب کچھ ترک کرنے پر ابھارے۔1


Hazrat Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Salat: The Reality of Prayer in Islam (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1998), 10-12.