اتّحادِ دل و دماغ

مولاناالمعظّم حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا، پیرِ اویسی، تعلیم فرماتے ہیں کہ: "انسان ایک حقیقی و جامع اکائی ہے" اور حقیقی "میں" کا کشف، جو انسان میں پوشیدہ علم کا منبع و سرچشمہ ہے، سیر و سفرِ خودشناسی فراہم کرتا ہے تاکہ انسان ایک کلّیت و ہمہ جہت یگانگی میں اپنی شناخت پر قادر ہو۔"

عرفان، ایک ہمہ جہت کلّیت میں وجودِ انساں کی شناخت پر زور دیتا ہے۔ ہر انسان کے جملہ ابعادِجسمانی و روحانی، دِماغ و دل اور ظاہر و باطن اُس کے لیے منکشف و مشخّص ہونے چاہییں۔ عرفان انسان کی دماغی و روحانی جہات کی جدائی کا قائل نہیں، بلکہ اِن دونوں غنی منابع کے مابین صحیح و حقیقی ارتباط فراہم کرتا ہے تا کہ انسان اپنی حقیقت کو ایک کلّیت و یگانگی میں شناخت کر سکے۔۔

"قلب سے دماغ تک جانے والی راہ کو روشن رکھ
اور دل و دماغ کو بیگانہ و بے خبر
ہم سایوں کی مانند مت چھوڑ۔"¹

ایسے ارتباط کا قیام ایک ہمہ جہت ہم آہنگی سے مشروط ہے، جو "میں" کی مرکزیت کے ذریعے سے میدانِ جاذبۂ ہستی میں دست یاب ہوتی ہے۔ مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی ® کی تعلیمات کی بِنا پر انسان کی ساخت بذاتِ خود، حقیقت کے دریافت کے لیے، پہلے ہی سے بنے ہوئے نظام کی حامل ہے۔ انسانی بدن تیرہ برقی مقناطیسی مراکز کا حامل ہے اور یہ مراکز سلامتی اور اِسی طرح مابعدالطّبیعیاتی و روحانی ابعاد میں انسانی حیات کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ اہم ترین مرکز کی جگہ قلب ہے۔ حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا نے اُسے "عقدۂ حیاتیٔ قلب" (سرچشمۂ حیات) اور بہ الفاظِ دیگر "میں" کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جب انسان ایک واحدِ حقیقی کے طور پر، اپنی مرکزیّتِ عالَم کے کشف کی راہ سے اپنی شخصیت کی شناخت پر قادر ہو، لازمًا ہم آہنگی سے بہرہ وَر ہوکر اور میدانِ جاذبہ کی راہ سےہستی کے جوہر و حقیقت سے مربوط ہوجاتا ہے۔

تعلیماتِ عرفان میں یہ میدانِ جاذبہ، دوسرے لفظوں میں غیرمرئی قوّت، در اصل ایک مقناطیسی میدان ہے جسے ہر شخص اپنی فرضی حدود سے نجات اور توازن و ہم آ ہنگی کے حصول کے ساتھ اُسے اپنے وجود میں کشف کرتا ہے اور اِس طریقے سے کُل کائنات کے میدانِ جاذبہ اور توانائی سے مربوط ہو جاتا ہے۔ عرفانی تعلیمات میں اس میدانِ جاذبہ کا نام "عشق" ہےاور در اصل یہی قوّتِ عشق ہےجو جزو وکُل کو باہم مربوط کرتی ہے۔ مولانا شاہ مقصود صادق عنقا فرماتے ہیں: "عشق ایک قابلِ نفوذ برقی اور مقناطیسی توانائی ہے جو لامتناہی جہان کے جزو وکُل کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہے۔"2

اِسی طرح یہ جاذبۂ عشق ہے جو انسان کےظاہر و باطن کو باہم مربوط و پیوست کر کےکثافت سے لطافت کی طرف سیر فراہم کرتا ہے، انسانی وجود "میں،"یعنی اُس کے وجود کی مرکزیت، ایک 'مقناطیس' کی طرح عمل کرتا ہے جو اِس کے خلیاتی تودے کو اپنے دائرۂ جذب میں لا کر ہستی میں موجود توانائی، عشق اور جذبے سے مملو کرتی ہے۔ عقدۂ حیاتیٔ قلب، یا دوسرے الفاظ میں مرکزِ اتّحاد و یگانگیٔ دو عالمِ طبیعی و روحانی، انسان میں پوشیدہ حالت میں ہے اور مراقبہ و عبادت ہی کی راہ سے یہ مرکز آشکار و ظاہر ہوتا ہے اور دل و دماغ کے مابین راہ روشن ہو جاتی ہے۔

خودشناسی کے سفر میں، پیرِ روحانی، بہ الفاظِ دیگر عارف کا حضور انسانی حقیقت کی شناخت و دریافت اور اُس کے ابدی و ملکوتی بُعد کے لیے ضروری ہے۔ عارف مقامِ کشفِ علم و حقیقت سے بہرہ ور ہو کے خودشناسی کی معیّنہ راہ پر چلنے والے سالکین کی ہدایت پر قادر ہے اور اُنھیں سِکھاتا ہے کہ کس طرح خودشناسی کی راہ کی رکاوٹوں پر غالب آ کر اپنی حقیقت پہچانیں۔ آٹھویں صدی کے عارف، شیخ صفی الدّین اردبیلی فرماتے ہیں: "جاننا چاہیے کہ مردانِ حق کی مصاحبت کے بغیر سالکوں کے دل سے حجاب نہیں اٹھتا۔ وہ طالب جو اپنے واہمہ و خیال کے ساتھ راہ طے کرے گا، سرابِ خودی میں گم ہوگا۔ غذاے تن عناصر و اثیر کے ثمرات کی بدولت ہے اور روح کی غذا روشن ضمیر صاحب دلوں کی صحبت و خدمت سے۔"


I. Molana Shahmaghsoud Sadegh Angha, Message from the Soul (Washington D.C.: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1986), 5.
2. Hazrat Shah Maghsoud Sadegh Angha, Hidden Angles of Life (Pomona, CA: Multidisciplinary Publications, 1975), 60.