عرفان:کتابِ وجودِ انسان کی 'الف بے' سیکھنا

«اَفَلَم یَسیرُوا فِی الاَرضِ فَتَـکوُنَ لَہُم قُلوُبٌ یَعقِلوُنَ بِہا اَو آذانٌ یَسمَعوُنَ بِہا فَاِنَّہا لا تَعمَی الاَبصارُ وَ لکِن تَعمَی القُلوُبُ الَّتی فِی الصُّدوُر.»
کیا اِن لوگوں نے زمین پر سیر نہیں کی تاکہ اُن کے دل ہوتے کہ اُن سے سمجھ سکتے یا اُن کے کان ہوتے کہ اُن سے سُن سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

قرآنِ کریم(سورۂ۲۲/الحجّ ، آیت۴۶)


عرفان خودشناسی کا مکتب اور دراصل ایک نظام اور راستہ اور طریقہ ہے جس کے ذریعے حقیقتِ وجود اور انسان کی واقعیت کا کشف ہو سکتا ہے۔ عرفانی تعلیمات میں انسان ایک کامل ہستی کے نمونے کے طور پر ازلی علم کا جلوہ پیش کرنے والا ہے۔

دوسرے الفاظ میں انسان کے اندر پوشیدہ علم خلیے سے لے کر کہکشاؤں تک پر مشتمل ہے اور انسانی وجود اُس کے طبعی جسم سے لے کر مقناطیسی جسم اور اُس کے مابعد الطّبیعیاتی پہلوؤں تک ایک جامعیت اور کلّیت کے ساتھ علمِ ہستی کو نمایاں کرنے والا ہے۔

امیر المؤمنین علی علیہ السّلام نے آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے فرمایا تھا:

«تم یہ گمان مت کرو کہ تم ایک چھوٹے سے جرثومے ہو،
تمھارے اندر ایک عالمِ اکبر پوشیدہ ہے
اور تم وجود کی آشکار کتاب ہو»

عرفان سکھاتا ہے کہ اپنے وجود کی کتاب پڑھنے کے لیے سب سے پہلے اُس کی 'الف بے' یاد کرنی چاہیے۔ انسانی وجود کی 'الف بے' یاد کرنا خودشناسی کی راہ میں پہلا قدم ہے جو انجامِ کار خداوندِعالم کی شناخت اور حقیقتِ وجود تک پہنچاتا ہے۔ حضرت مولانا میر قطب الدّین محمّد عنقا پیرِ اویسی فرماتے ہیں:

«اگر قاموسِ معنوی کی 'الف بے' ہاتھ آجائے اور کتابِ ناطقِ نفس کے رموز کا کشف ہوجائے تو ہم کتاب صامت سے بے نیاز ہو کر غنی بالذات کے مقام کے نزدیک ہو جائیں گے۔»1

مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی® کی تعلیمات کے مطابق انسانی ساخت ذاتی طور پر کتابِ ناطقِ نفس کے رموز کی دریافت کی خاطر پہلے سے تیّار کی گئی ایک میکانزم کی حامل ہے۔ انسانی بدن ۱۳ برقناطیسی مراکز کا حامل ہے۔ ان ۱۳ برقناطیسی مراکز میں سے ہر ایک اپنی ایک خاص کارکردگی کا حامل ہے، جو خاص برقناطیسی منابع اور دنیا کی توانائی سے مربوط ہے۔2 اِن میں سے اہم ترین

مرکز کی جگہ قلب ہے۔

حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا اپنی کتاب "عرفان، واقعیتِ دین" میں فرماتے ہیں: «قلب کی اہمیت پورے قرآنِ کریم اور انجیلِ مقدّس میں بار بار بیان کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اسلام میں نماز سورۂ فاتحہ سے شروع ہوتی ہے(سورہ:۱، آیات: ۱ تا ۷) "رحمٰن و رحیم پروردگار کے نام سے ۔ ۔ ۔ خداوندا! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما۔" سیدھا راستہ دراصل وہ راستہ ہے جس میں نورِ اشراق انسانی وجود کو مملو کرتا ہے۔»3

حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا تعلیم فرماتے ہیں کہ انسانی بدن میں توانائی کا اہم ترین منبع انسانی قلب میں ہے جسے "عقدۂ حیاتیٔ قلب" یعنی قلب میں سرچشمۂ حیات کہتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب "پیامِ دل" میں یوں فرماتے ہیں:

سرچشمۂ حیات سے ایک سو ایک دھارے نکلتے ہیں جو اکہتّر ہزار سلسلوں سے دس بلین (10,000,000,000,000) دماغی خلیات کو سیراب کرکے پروان چڑھاتے ہیں تا کہ خداوند کی مخلوق اِس پھیلاو اور چناو میں کامل ہو جائے۔ سرچشمۂ حیات عالمِ لطیف اور عالمِ کثیف کے در میان پایا جاتا ہے اور اُس کا عمل مشیّتِ خداوندی ہے۔ وہاں زندگی کی بیداری اور موت کی نیند ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں۔ اوّل الذّکر پائداری کی طرف اور آخرالذّکر ناپائداری کی طرف کھینچنے والا ہے۔4

قلب میں سرچشمۂ حیات دوسرے الفاظ میں اتّحاد اور یگانگی کا مرکز انسان میں عالمِ ملکوت اور عالمِ مادّی میں پوشیدہ حالت میں موجود ہے اور تمرکز اور عبادت کے ذریعے سے یہ مرکز آشکار ہو جاتا ہے۔

معلّمِ وجود، یعنی عارفِ زمان سالک کو راہِ حق کی تعلیم دیتا ہے، جس میں نظم و ضبط، تربیت، تادیب، تزکیۂ نفس، تمرکز® اور اِسی طرح عبادت سے شناخت میسّر ہوتی ہے۔

تمرکز ® کا مطلب تمام قوّتوں کا مجتمع ہونا اور ہمہ پہلو اعتدال اور ہم آہنگی کا حصول فراہم کرنا ہے۔

تمرکز®، جس میں "موازنہ"® بھی شامل ہے، دوسرے الفاظ میں تمرکزی مشقیں بہت دقیق ہیں جو اندرونی طاقتوں کو متوازن کرنے کا سبب بنتی ہے اور جسمانی توانائی کے میدان کی تقویت کا موجب بنتی ہے۔ نتیجے کے طور پر راہِ حق کا سالک حقیقت کی دریافت کے لیے ہم آہنگی اور لازمی وصولیابی حاصل کرتا ہے اور اپنی کتابِ وجود کی قاموسِ معنوی کی 'الف بے' پڑھنے پر قادر ہو جاتا ہے۔

"عرفان و علم" سے اقتباس
از مولانا صلاح الدین علی نادرشاه عنقا

خداوند تجھے پختہ ارادہ عطا کرے تا کہ تُو خود کو پہچاننے کی راہ میں تگ و دو کرے۔

اور تجھے قاموسِ معنوی کی 'الف بے' سکھائے تا کہ تُو اپنے نفس کی کتاب خود پڑھ سکے۔

خداوندتجھے صبر و تحمّل اور ہمّت عطا کرے تا کہ تُو اپنی باطنی قابلیت کی انتہائی درجے تک پرورش کرے۔

اور اپنے طور طریقوں میں امن و صلح کا پابند رہے۔

خداوندعلم کے دروازے تجھ پر کھول دے تا کہ تیرے اعمال کو علم و حکمت کے نور کی ہدایت حاصل رہے۔1


I. Hazrat Mir Ghotbeddin Mohammad Angha, From Fetus to Paradise: The Evolutionary states of Man (Verdugo City, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, ----), 176.
2. Nader Angha, Theory "I": The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 142.
3. Hazrat Salaheddin Ali Nader Angha, Sufism, The Reality of Religion (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2000), 55.
4. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Message from the Soul, reprinted in The Mystery of Humanity: tranquility and survival (Lanham, MD: University Press of America, 1996), 63-64.