تصوّف یا عرفان

مولاناالمعظّم حضرت جلال الدّین علی میرابوالفضل عنقا نے اپنی کتاب" انوارِ قلوبِ سالکین" میں تصوّف کو حضرت امیرالمومنین(ع) کی تعلیمات پر مبنی قرار دیا ہے اور کلمۂ" تصوّف" کےحروف کی بنیاد پر تصوّف کی یوں توصیف فرمائی ہے:

کہ تصوّف چار حروف سے مرکّب ہے        اس میں، ت، ص، و اور ف ہیں ت سے ترک و توبہ آتے ہیں، تقا (پرہیزگاری)        کے ساتھ ص صبر ، صدق اور صفا ہے و کو ورد ، وُدّ (دوستی) اور وفا (سمجھو)        ف کو فقر، فرد اور فنا (جانو)

ان کے مفاہیم کچھ یوں ہیں:

ت – میں ترک، توبہ اور تقا شامل ہیں۔

ترک: یعنی نجات، اور خواہشات ،عادات اور مادّی وابستگیوں اور دُنیوی جاذبیّتوں کا ترک تاکہ اعتدال کا حصول اور افراط و تفریط سے نجات ہو۔

توبہ: وجد اور اندرونی شوق سے مرکزیّتِ قلب اور خداوند کی طرف پلٹنا۔

تقا : پرہیزگاری ۔

ص – صبر: صدق و صفا کو آغوش میں لیے ہوئے ہے۔

صبر: ہدف کو پہنچنے والے راستے میں بُردباری و برداشت اختیار کرنا۔

صدق: اعمال و کردار اور گفتار میں سچّائی اور صدقِ نیّت کا ہونا۔

صفا: تزکیے کے لیے مسلسل سعی اور آئینۂ دل سے گم راہی دُور کرنا۔

و ۔۔ اِس میں وفا، وُدّ اور وِرد شامل ہیں۔

وفا: وعدوں کی پابندی۔

وُدّ: عشق و جذبہ ہے۔

وِرد: خداوند کا ذکر اور اُس کی یادآوری۔

ف ۔۔ فقر و فرد اور فنا ہے ۔

فقر: دانشِ حقیقی کا کشف اور غیر سے بے نیازی ہے۔

فرد: غیر سے جدائی اور ملحقات سے الگ واقعیت کی پیش کش ہے۔

فنا: قلب میں تجلّیاتِ الٰہی کا ظہور اور حق سے یگانگی ہے۔