"آوازِ خدایان" سے اقتباس

از مولاناالمعظّم حضرتِ شاہ مقصود صادق عنقا

آسمان عظیم ہستیوں کو دعوت دیتے ہیں۔

صحرا کے پھول اور پانیوں کے کنول،

صاف و شفّاف بہتے پانی،

پرندوں کے نغمات،

سمندر کے افق پر چاند اور سورج کا جلالِ غروب و طلوع،

بہار کے شگوفوں کا جلوہ،

رخسارِ چمن پر شبنم کے قطروں کی دمک

اور ہزارہا دیگر تجلّیات،

خداؤں کے خاموش نغمے ہیں جو فطرت کے پردوں میں پوشیدہ ہو گئے ہیں۔

اے کاش، ایک بار پھر دلوں کا غرور مٹ جائے، سچّائی جہان کو اپنی آغوش میں لےلے اور ارواح مثلِ آئینہ جِلا پالیں۔

طلوعِ سحر تک مقدّس پیام بر آسمانِ وجود پر خداؤں کے نغمے گنگناتے رہے اور انسانی زندگی کو تقویت بخشتے رہے۔

ایمان رکھنے والوں نے کہا ہے کہ خداؤں کی آخری آواز، جو فرشتوں کی زبان پر جاری ہوئی، یہ تھی:

گناہ اور تباہی کی پیروی سے راہِ مغفرت مسدود نہ کرو۔خداؤں پر اعتماد رکھو اور منتظر رہو۔یہاں تک کہ رحمت کی نہریں دلوں کی زمین میں جاری ہو جائیں اور موت اپنی قوّتِ فشار کم کردے۔اور زندگی کا شجر دوبارہ کھل اُٹھے اور پیام بر آسمانِ حیات پر خداؤں کی آواز میں گیت گانے لگیں۔1


I. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, The Mystery of Humanity: tranquility and survival; Psalm of the Gods (Boston, MA: University Press of America, 1996), 85-86.