روزه

روزہ اسلام کے "فروعِ دین" میں سے ایک ہے۔ قرآن پاک میں روزے اور ماہِِ رمضان سے متعلق مندرجہَ ذیل آیات آتی ہیں:

"رمضان کا مہینا، جس میں قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کے لیے رہنما ہے اور ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے۔" (سورہَ بقرہ:۲، آیت۱۸۵)

"مومنو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تُم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم پرہیزگار بنو۔" (سورہَ بقرہ:۲، آیت۱۸۳)

رمضان تزکیہَ نفس، خود تنظیمی اور بھرپور خلوصِ دل سے خدا کو یاد کرنے کا مہینا ہے۔ یہ ایک ایسا مہینا ہے، جس کے دوران الله نے پیغمبرِ اکرم(ص) پر قرآنِ پاک نازل فرمایا۔

مکتبِ طریقتِ اویسیَ شاہ مقصودی®، مکتبِ عرفان اسلامی کے استاد حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا نے رمضان کی روحانی اہمیت کو واضح کیا ہے اور اپنی تعلیمات میں روزے کی حقیقت کوحسبِ ذیل الفاظ میں اجاگر کیا ہے:1 رمضان کا مادّہ "رم ض" ہے جس کا مطلب ہے ایک ایسی زمین جو سخت گرمی اور خشکی کی وجہ سے پھٹ گئی ہو۔ ایک ایسی زمین جو اپنی پیاس کی وجہ سے اس قدر خشک ہو چکی ہو کہ اس کی سطح چٹخ گئی ہو اور اس سطح کے مختلف حصّے اپنے کناروں سے اوپر کی طرف اس طرح اٹھ گئے ہوں کہ ان سے پیالہ نما شکل بن گئی ہو، یہ سطح زمین سے الگ ہو گئی ہو، اس کا رخ آسمان کی طرف ہو اور وہ انتظار کر رہی ہو کہ خالص اور زندگی سے بھرپور بارش برسے اور اس کی پیاس بجھائے۔

یہ ماہِ رمضان میں حق کے ایک سچّے متلاشی کی روح اور جسم سے تقاضے کی نمائندگی ہے۔ سالک اپنی تشنگی کے عالم اور طلب میں دنیاوی آسائشوں کی طرف سے اپنا رخ موڑ لیتا ہے۔ اپنی تنہائی میں وہ اپنے قلب میں واقع سرچشمہَ حیات کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس چشمے سے عشق اور علم کے بہاو کا انتظار کرتا ہے۔

عربی میں روزے کو "صوم" کہتے ہیں۔ اس لفظ "صوم" کا مطلب ہے: تہِ رودہ (خالی آنت)۔ اِسے یہ نام اِس لیے دیا گیا ہے کہ 'تہِ رودہ' چھوٹی آنت کے ایک حصّے کو کہا جاتا ہے جو خود میں کسی کھانے کو نہیں رہنے دیتا۔ موت کے بعد اس حصّے میں کوئی کھانا موجود نہیں ہوتا، اس لیے یہ ہر قسم کی فضولیات سے پاک ہوتا ہے۔

روزہ دار جسے "صائم" کہتے ہیں اس شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو تزکیے اور پاکیزگی کے عمل سے گزرتا ہے۔ کھانے، مشروبات اور دن کے دوران پیش آنے والی دیگر خلیاتی لطف اندوزی اور خواہشات سے گریز، منفی سوچوں اور رنجیدہ جذبوں اور کم تر درجے کی عادات اور تمام غیرضروری الفاظ اور عمل سے بچ کر، روزہ دار اپنے پورے نظام کو پاکیزہ بنا لیتا ہے۔

اپنے وجود کے سارے پہلوؤں، یعنی جسمانی، ذہنی، جذباتی اور روحانی سطحوں کے تزکیے کی بدولت ایک توازن اور ہم آہنگی میسّر آجاتی ہے جو قلب کے اندر موجود سرچشمہَ حیاتی کے ذریعے وجود کے اصل جوہر سے وابستہ کر دیتی ہے۔ یہ اُس وقت ہوتا ہے جب محبوب کا عشق ہمارے قلوب میں شعلہَ عشق کو فروزاں کر دیتا ہے۔

حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا، پیراویسی، اپنی کتاب "الرّسائل" کے مقالے "تطہیر و تنویر القلوب" میں فرماتے ہیں2

شریعت میں روزہ کھانے پینے سے گریز، طریقت میں روزہ تشکیک و اوہام سے گریز اورعشقِ ربّانی میں مکمّل جذب کی حالت ہے۔"

روزے کے اصل مفہوم کو سمجھ کر، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روزہ صرف رمضان المبارک تک محدود نہیں۔ سالک اپنی حالتِ تجربہَ عشق سے خود بھی لطف اٹھاتا ہے اور اِس ماہ میں وہ جو سبق سیکھتا ہے، اُسے خود اپنے وجود کی ترقّی اور نمو میں رہنمائی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ پھر وہ سال بھر ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھنے کی مشق جاری رکھتا ہے۔


I-Angha, Salaheddin Ali Nader. Pleasant Hill, CA, September 1992. Lecture.
2-Angha, Shah Maghsoud Sadegh. Al-Rasa’el. Tehran:M.T.O. Shahmaghsoudi Publications®,1975, Print.