تصوّف مذاہب کے درمیان ایک پل

"خدا کی مقدّس قلمرو میں فقط قلب میں پوشیدہ راز ہی کام آتے ہیں۔"

حضرت مولانا صلاح الدّین علی نادر عنقا، پیر اویسی


از «تصوّف مذاہب کے درمیان ایک پل » 1

ہم جائزہ لے چکے ہیں کہ مذہب کا آغاز کیونکر ہوا اور لوگوں نے فطرت کی بہت سی توانا قوّتوں کی علامتوں کی عبادت کس طرح شروع کی اور کیوں اُن کی نمائندگی کے طور پر بہت سے بت تراش لیے اور بھول گئے کہ 'علامت' حقیقت نہیں ہوتی۔ ۔

پھر پیغمبر بھیجے گئے جن کا فریضہ تھا کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ اِس طرح کی عبادات غلط ہیں اور اُنھیں اللّٰہ کی معرفت اور اُس کی وحدانیت سے ہم آہنگ ہونے کا درس دیں۔ پیغمبروں کی آمد کے ساتھ ہی تصوّف کا آغاز ہوتا ہے، کیوں کہ صرف عرفان و تصوّف ہی کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے کہ اللّٰہ کی محبوب ذات کو کیسے پہچانا جائے اور اُس کے ساتھ کیسے ہم آہنگ ہو ا جا سکتا ہے۔ لوگوں نے پیغمبروں کی تعلیمات محض فرماں برداری اور اطاعت کے طور پر تو قبول کرلیں، مگر اُنھیں اللّٰہ کی حقیقت کا ادراک نہ ہوا۔ اُنھوں نے پیغمبروں کی ہدایات سن کر، اپنی اپنی پسند کے خدا اپنے اپنے ذہنوں میں تراش لیے اور جس طرح وہ پہلے لکڑی اور پتھّر سے علامات ڈھالتے تھے، اب اُنھوں نے الفاظ اور حروف سے علامات تراش لیں اوریوں اپنے لیے کچھ نئے بت بنا لیے۔ اُنھوں نے اپنے اپنے تصوّر کے مطابق خدا تخلیق کرلیے۔ ۔

پیغمبروں کے بعد، انتہائی عالم اور روحانی شخصیات نے اُن راستوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی جو پیغمبروں نے حقیقتِ وجود تک پہنچنے کے لیے تعلیم کیے تھے۔ چوں کہ اُنھوں نے اپنے اپنے مختلف معاشروں کے مطابق یہ تعلیمات مختلف انداز میں پیش کی تھیں تو اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف قسم کے گروہ وجود میں آ گئے اور معاشرے میں ایک دین کے بجاے مختلف مذاہب کی باتیں ہونے لگیں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ، اِن گروہوں کا آپس میں تصادم ہونے لگا۔ بظاہر تو یہ تصادم مذہب کی وجہ سے تھا، لیکن حقیقتًا دولت اور طاقت کی حصول کے لیے تھا۔

بہ ہرحال، حقیقتِ دین کا تعلّق ہرگز اِن مختلف طور طریقوں اور طریقہ ہاے عبادت سے نہیں ہے جو صدیاں گزرنے کے ساتھ وجود میں آ گئے ہیں۔ دین کی بنیاد ذاتِ الٰہی ہے، اور ذاتِ الٰہی کو ہم محض اپنے ذہن یا اپنی ظاہری حسّیات کے ذریعے نہیں سمجھ سکتے، نہ ہی دوسروں کے الفاظ کے پڑھنے یا سننے سے سمجھ سکتے ہیں۔

دین کی دریافت کا مطلب ہے، خود اپنی ذات کے عمیق باطنی رخ کی دریافت، جہاں سے خدائی صفات کا بہاو شروع ہوجاتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جسے پیغمبروں نے شناخت کیا تھا۔ اِس خصوصیت کے حصول کے لیے ذات میں نظم و ضبط، انہماک اورخاص تربیت کی ضرورت ہے جو تصوّف و عرفان ہمیں مہیّا کرتا ہے۔

اپنے اِس مقصد کو حاصل کرنے اور اپنی 'ذات' اور اپنے وجود، یعنی 'میں'کی سچّی دریافت کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ یہ علم ہمارے عام سماجی ذرائع سے حاصل نہیں ہو سکتا، بلکہ انسان کو اپنی حسّیات کی حدود سے بالاتر ہو جانا چاہیے۔ یہی 'میں' تصوّف و عرفان کی بنیاد ہے، جو پیغمبروں کے راستے پر راہنمائی کرتے ہوئے، انسان کا رخ سچّائی کے اُس بیج کی طرف موڑ دیتا ہے جو پہلے ہی سے اُس کے دل میں موجود ہے۔

اِس لحاظ سے تصوّف کی حیثیت ایک پُل کی ہے جو تمام 'مذاہب' کو آپس میں ملا دیتا ہے، کیوں کہ یہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتا ہے۔

ذاتی مشاہدات و تجربات اور معرفتِ الٰہی کی یہ اہمیت، جس پر بہت زور دیا جاتا ہے، اور تنظیم و تربیت کے وہ تمام طریقے، جو کسی طالبِ علم کو اِس مقصد کے حصول میں مدد دیتے ہیں، دراصل علم وعرفان کو یہ درجہ دیتے ہیں کہ وہ مختلف 'مذاہب،' ہمارے اندرونی وجود اور ہماری دنیا، دونوں کے درمیان ایک پُل کا کام سرانجام دے۔

لہٰذا بہت سے اختلافات اور جھگڑے، جو مختلف رسومِ عبادات اور عقائد کے حوالے سے ہوتے ہیں، سب غیرمتعلّق ہیں۔ خدا کی مقدّس قلمرو میں فقط قلب میں پوشیدہ راز ہی کام آتے ہیں۔


I.Nader Angha, Sufism; A Bridge Between Religions (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 51-53.