"دین ایک حقیقت ہے"
"اِنَّ الدّینَ لَواقِع"
بے شک دین واقعّیت ہے۔
قرآنِ کریم(سورۂ الذاریات:۵۱، آیت۶)
مذہب کا عمل افراد کے اُن رویّوں سے متعلّق ہے جو وہ مذہبی اداروں کے مختلف نوعیت کے اجتماعات میں شرکت کے وقت اختیار کرتے ہیں۔ اِن اعمال کی بجا آوری کا مقصد مختلف ہوتا ہے، تاہم اِس میں سب سے زیادہ سزا کا خوف، اچھّے کاموں کے لیے انعام کی امید، گناہ کا احساس، روح کی تسکین یا سماجی اور تہذیبی مقاصد شامل ہوتے ہیں؛ لیکن یہ مذہب کی حقیقت نہیں۔
جب ہم پوچھتے ہیں لوگوں سے: "تم یہ کیسے جانتے ہو کہ خدا وجود رکھتا ہے؟" وہ عام طور پر یہ جواب دیتے ہیں کہ اُن کے اندرونی احساس اور باطنی کیفیات نے اُنھیں یقین دلایا ہے کہ خدا موجود ہے، مگر لوگ اِن محسوسات پر کس حد تک انحصار کر سکتے ہیں؟
مولانا روم نے درجِ ذیل داستان میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ حسّیات اپنے محدود دائرے میں حقیقت کی شناخت پر قادر نہیں اور حقیقت کی شناخت شہود اور یقین کی بِنا پر حاصل ہوتی ہے۔
پیـل انـدر خانـه ای تـاریـک بـود
عرضـه را آورده بودنـدش هُـنُـود
از بـرای دیـدنـش مـردم بـســـی
اندر آن ظلمت همی شد هـر کسـی
دیدنش با چشم چون ممکـن نبـود
اندر آن تاریکی اش کف می بسـود
آن یکی را کف به خرطوم اوفتـاد
گفت همچون ناودان است این نهاد
آن دگر را دست بر گوشش رسیـد
آن بر او چون بادبیـزن شـد پـدیـد
آن یکی را کف چو بر پایش بسود
گفت شکل پیل دیـدم چون عمـود
آن یکی بر پشـت او بنهـاد دســت
گفت خوداین پیل چون تختی بُدَست
همچنین هریک به جزوی چون رسید
فـهـم آن می کـرد هر جـا می تَنیـد
از نظـرگـه گفتشــان شـد مختلـف
آن یکی«دالش»لقب داد این«الف»
در کف هر کس اگـر شمعی بُـدی
اختلاف از گفته شـان بیرون شدی3
ترجمہ:
کوئی ہاتھی کسی اندھیرے گھر میں تھا۔ جسے کچھ ہندو پیش کرنے کے لیے لائے تھے ۔
اُسے دیکھنے کے لیے لوگ امڈ پڑے اور اُس اندھیرے گھر میں داخل ہو گئے۔
چوں کہ تاریکی کی وجہ سے اُسے دیکھنا ممکن نہیں تھا اِس لیے ہر ایک اُس اندھیرے میں ہاتھ چلا رہا تھا۔
ایک شخص کے ہاتھ میں ہاتھی کی سونڈ آ گئی تو اُس نے کہا کہ ہاتھی تو پرنالے کی مانند ہے۔
ایک شخص کے ہاتھ میں کان آ گئے تو اُس نے کہا کہ ہاتھی تو پنکھے جیسا ہے۔
ایک آدمی کے ہاتھ پاؤں سے لگے تو اُس نے کہا میں نے ہاتھی کو دیکھا وہ بالکل ستون کی طرح ہے۔
ایک آدمی نے ہاتھی کی پشت کو چھوا تو کہنے لگا کہ ہاتھی تو بالکل ایک تخت لگتا ہے۔
اِس طرح ہر کسی کو جو بھی حصّہ ہاتھی کا ملا، وہ اُس حصّے کو ہاتھی سمجھ کر اِتراتا تھا۔
ہاتھی کے بارے میں ہر ایک کا نظریہ الگ تھا۔ ایک اُسے "دال" کہتا تھا تو دوسرا "الف۔"
اگر اُن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک شمع ہوتی تو یقینًا اُن کی باتوں سے اختلاف ختم ہو جاتا۔
زمانے کی غفلت کے حجاب اور پردے اگر درمیان سے ہٹادیے جائیں تو نور کی جھلک میں حقیقت کی تجلّی حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ منزل ہے جہاں حواس کے دائرۂ عمل کا فریم ٹوٹ جاتا ہے اور حقیقت اُس طرح، جیسا کہ وہ ہے، قابلِ مشاہدہ بن جاتی ہے اور شکّ و تردّد اور ہر قسم کے اختلافِ نظر کی جگہ علم اور یقین آ جاتا ہے۔
قرآنِ کریم میں خداوند کے فرمان کے مطابق "دین ایک حقیقت ہے،"
لہٰذا دین کی حقیقت کو منکشف کرکے اُس کی شناخت حاصل کرنی چاہیے۔
عرفان حقیقتِ دین کی شناخت کی تعلیم دیتا ہے۔۔
حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا پیرِ اویسی فرماتے ہیں:
"عرفان لفظ 'عرف' بمعنیٔ 'شناخت' سے ماخوذ ہوا ہے، جس کا مطلب خداوند کی شناخت اور پوشیدہ علم اور ہستی کے اسرار کو دریافت کرنا ہے۔ عرفان پیغمبروں کا راستہ ہے، کیوں کہ انبیاے کرام نے حقیقتِ دین کو اپنی ذات کی حقیقت کی شناخت کے ذریعے منکشف کیا ہے، جو آخرِکار خداوند کی شناخت اور براہِ راست رابطے تک پہنچاتی ہے، اِسی لیے میں نے عرفان کو حقیقتِ دین کا نام دیا ہے۔"4