عشق و جذبے کا اصول

عشق و جذبے کا اصول وجود کی ایک حقیقی بنیاد ہے جو تمام وابستگیوں، تعلّقات، خام احساسات اور ہر قسم کے محدود اور متغیّر پہلوؤں سے ماورا مصروفِ عمل ہوتی ہے۔ جس چیز کو انسان 'عشق' کے نام سے جانتا ہے وہ مجازی اور محدود عشق ہے جو عشقِ حقیقی کی ایک محدود جھلک ہے۔ حقیقی عشق ایک وجودی اصل ہے جو بنیادی اور مستحکم تکیہ گاہ کی حامل ہے اور تبدیلیوں اور تغیّرات پر مشتمل نہیں۔ محبّت کی عام سطح روزمرّہ زندگی، جنسیت، دوستی اور دوسری کششوں میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ لوگ اکثر غلطی سے جنسی جذبے اور حسّیاتی جنسیّت کو محبّت کی اعلٰی ترین شکل سمجھ لیتے ہیں، جب کہ یہ حقیقت میں کم ترین شکل ہوتی ہے

عشقِ مجازی، جو عشقِ حقیقی کی ایک شکل ہے، اپنے اِس محدود مرتبے میں بھی کچھ مثبت جھلکیوں کی حامل ہے۔ عاشق انسان کی زندگی کو معنی و مفہوم ملتا ہے۔ وہ شوق و جذبہ رکھتا ہے، توانائی رکھتا ہے، تنہا نہیں اور پُرامید ہے۔ وہ ایثار کا جذبہ رکھتا ہے، حُسن کو بہتر سمجھتا ہے، مشکلات کو کم تر گردانتا اور احساس رکھتا ہے، لیکن چوں کہ اِس مقام میں عشق متغیّر ہے اور یہ تمام حالات اُس عشقِ مجازی کے تقاضوں کے تحت بدلتے رہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ مکمّل بر عکس اور منفی شکل اختیار کرلے۔عشقِ مجازی میں تغیّرات شامل ہیں، جب کہ عشقِ حقیقی ایک جوہر ہے جو قائم ہے۔ وہ "میں" کی مرکزیت میں پوشیدہ ہے اور اُس کی جھلکیاں بھی غیر متغیّر اور ابدی ہیں۔1

پروفیسر صادق عنقا عشق کی ایک وجودی اصل کے طور پر، جو حیات کے لطیف ترین اور روحانی ترین مرتبے کے مترادف ہے، تعریف کرتے ہیں۔
عشقِ حقیقی ابدی، ثابت اور غیر متغیّر "میں" کی مرکزیت میں پوشیدہ جذبہ ہے ۔ عشق ایک ایسی قوّت ہے جو ہستی کے ذرّات کو باہم مربوط کرتی ہے، عشق ہستی کی قوّتِ جاذبہ ہے،کیوں کہ:

"عشقِ سوزاں قلب کا جوہر ہے اور وجود کے اندر نہاں۔ جاوداں عشق بہ ہر عنواں عالمِ ارتقا کی سمت رواں ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ اُس ہمہ گیر عشق سے مل کر اَمر ہو جائے۔ عالمِ بالا کی سمت ذرّات کی جوہری حرکت اور دائمی کوشش اِسی جاذبۂ عشق کے اثرات ہیں۔"2

 

اگر کوئی انسان اپنے وجود کی مرکزیت سے غافل ہوجائے اور اپنے حقیقی مدار سے دُور ہٹ جائے تو صرف عشقِ مجازی کے تجربے کرسکتا ہے اور دائمی عشقِ سوزاں سے، جو حیات کے پہیّوں کو متحرّک کرنے والا، محور اور اُس کی زندگی کی قوّت ہے، محروم رہ جاتا ہے۔۔

"عشق ایک قابلِ نفوذ برقی اور مقناطیسی توانائی ہے جو لامتناہی جہان کے جزو وکُل کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔

اگر عشق کا جاذبہ نہ ہوتا تو کوئی ذرّہ وجود میں نہ آتا۔"3

یہی عشق کا جاذبہ ہے جو ہستی کے تمام موجودات اور خصوصی طور پر انسانوں کو ظاہر و باطن کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے کثیف عالَم سے لطیف عالَم کی جانب سفر فراہم کرتا ہے۔ انسان کے وجود میں "میں،" یعنی اُس کی وجودی مرکزیت کسی مقناطیس کی مانند کام کرتی ہے، جو خلیوں کے اِس گروہ کو اپنی کشش کے تحت لا کر ہستی میں موجود عشق، جذبے اور توانائی سے اُسے مملو کرتی ہے۔ تمام افراد اِس ثابت وجودی مرکزیت کے حامل ہیں اور جس وقت اِن افراد میں سے ہر ایک اپنی وجودی اور حقیقی قدر و قیمت کو منکشف اور حاصل کرلے، تو اُن کے درمیان یہی قدرِ مشترک ہے جو درست ایک ڈوری کے مانند اُنھیں ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہے اور اُن کے ماحول میں آپس میں ہم بستگی، عشق اور جذبہ فراہم کرتی ہے۔ ایسے افراد جن کی زندگی میں اصولِ عشق و جذبہ فرماں روا ہو اور اُن کا وجود اِس سے مملو ہو، متحرّک، فعّال، پُرامید اور مثبت ہیں اور وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے، اُن کی موجودگی مثبت توانائیوں اور زندگانی کی شگفتگی کو رونق بخشتی ہے۔4


I. Nader Angha, Theory "I": The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 115.
2. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Principles of Faghr and Sufism (Verdugo City, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications), 111.
3. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, The Hidden Angles of Life (Pomona, CA: Multidisciplinary Publications, 1975), 60.
4. Nader Angha, Theory "I": The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 116.