دین کی وحدت

"اشہد ان لا الہ الااللّہ" "گواہی دیتا ہوں اللہ کی یکتائی کی"
رسولِ اکرم حضرت محمّد (ص )

تمام ادیان کی بنیاد ایک ہی اصل پر استوار ہے اور وہ اصل اللّہ کی یکتائی ہے۔ پیغمبروں نے اس الٰہی پیغام کی خوش خبری کو انسان کے لیے سوغات کے طور پر پیش کیا ہے کہ خدا ایک ہے اور انسان اس کی معرفت حاصل کرنے پر قادر ہے اور چوں کہ خدا ایک ہے اور حقیقت ایک ہے تو لازمی ٹھہرے گا کہ دین بھی ایک ہی ہو۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ 'ادیان' کا مفہوم کیا ہے؟ اوردین کی حقیقت کیا ہے؟

حضرت عیسٰی، حضرت موسٰی اور حضرت محمّد(ص) جیسے پیغمبروں کی تعلیمات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ ان تمام پیغمبروں نے لوگوں کو خداے واحد کی معرفت کی طرف دعوت دی اور انسان کو اعلٰی تر درجات تک پہنچنے کی تعلیم دی۔ دوسرے الفاظ میں اوپر بیان کیے ہوئے ادیان میں کوئی بنیادی فرق نہیں، بلکہ اختلاف اُس اجتماعی اور انفرادی تشریح کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو دین کی حقیقت کے بارے میں کی جاتی ہے۔ یہ بات مسلّمہ ہے کہ تمام ادیان خداے واحد کے وجود پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اختلاف انبیا کی تعلیمات کی تعبیرسے پیدا ہوتا ہے اور یہ مختلف تعبیرات ہی پوری انسانی تاریخ کے دوران تفرقے، انتشار اور جنگ کا سبب بنی ہیں اور انھی کی وجہ سے مذاہب کے درمیان تصادم ہوتا رہا ہے۔

حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا، پیرِ اویسی نے دین کی حقیقت کو جاننے کے خواہش مند ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا: "آج تک کئی جنگیں دین کے نام پر ہوچکی ہیں اور اب بھی کئی جنگیں اور تصادم جاری ہیں۔ یہ جنگیں کس مسئلے پر ہو رہی ہیں؟ کیا خدا کے مسئلے پر؟ کیا ایک سے زیادہ خدا ہیں؟ فرض کیجیے، اگر حضرت موسٰی، حضرت عیسٰی اور حضرت محمّد(ص) ایک ہی زمانے میں ہوتے تو کیا وہ باہم جنگیں کرتے؟ کس مسئلے پر کرتے؟"

اِس کے بعد فرماتے ہیں: "دین کی اصل ایک ہے۔ اگر تم خدا کی معرفت حاصل کرو گے تو تمھارے لیے دین ایک حقیقت ہوگا، اور اگر تم نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی تو سب کچھ محض تمھارے تصوّرات کا تانا بانا ہے۔ دراصل حقیقت ایک ہی ہے، یعنی ایک خدا اور ایک دین۔"

پیغمبروں میں سے ہر ایک نے معرفتِ دین، یعنی اُس یکتا حقیقت کے کسی خاص مرتبے کی تعلیم دی ہے۔

دین اصل میں ایک ہی ہے، اگرچہ انسان نے اِس ایک دین کو کئی مذاہب میں تقسیم کیا ہوا ہے اور ان مذاہب میں سے بھی ہر مذہب کئی شاخوں میں بٹ چکا ہے، لیکن دین کا حقیقی جوہر ایک ہے اور اس کے تین درجے ہیں:(۱) قانون، یعنی شریعت۔ (۲) راستہ، یعنی طریقت۔ (۳) حقیقت تک رسائی۔ ان میں سے صرف کوئی ایک درجہ کسی انسان کو آخری حقیقت تک نہیں پہنچا سکتا، یعنی آخری حقیقت تک رسائی کے لیےتینوں درجوں سے گزرنا لازمی ہے۔

پہلا درجہ: قانون یا شریعت ہے جو فرد اور معاشرے کو نظم و ضبط کے اندر رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ پہلا قانون یا پہلی شریعت دینِِ موسوی، یعنی یہودیت کی شکل میں سامنے آئی۔ حضرت موسٰی نے شرعی قوانین اللّہ سے حاصل کیے اور دس احکام کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیے، تاکہ لوگ اُن پرعمل کریں اور اپنے اور معاشرے کے لیے نظم و ضبط اور ضروری ہم آہنگی پیدا کریں اور اِس طرح سرزمینِِ موعود تک پہنچنے کا راستہ معلوم کریں، لیکن حضرت موسٰی کے پیروکاروں نے اِس شریعت پر عمل نہیں کیا۔

دوسرا درجہ: راستہ یا طریقت ہے۔ اِس درجے میں پیدائشِ نو اور روحانی عروج کے حصول کے قوانین پیشِ نظر ہیں، جو حضرت عیسٰٰی اور مسیحیت کی تعلیمات کے ذریعے متعارف ہوئے ہیں۔ حضرت عیسٰی نے فرمایا: "میں شریعت اور انبیاء کی تعلیمات کو مِٹانے نہیں آیا، بلکہ اُن کی تعلیمات کو مزید ثمر آور کرنے آیا ہوں۔" اُنہوں نے یہ بھی فرمایا: "میں معرفت کا راستہ ہوں، میں ہی پیدائشِِ نو اور روزِ موعود کی واقعیت ہوں اور ملکوتِ پدر(خداوند) تک تمھاری رہنمائی کرنے والا ہوں۔" میتھیو(19- 5:17)۔ اُن کے پیروکاروں نے نہ صرف یہ کہ اُن کی تعلیمات پرعمل نہیں کیا اور باطنی راہ اختیار نہیں کی، بلکہ اُن کو مصلوب کرنے کے بھی درپے ہو گئے۔

تیسرا اور آخری درجہ: حقیقتِ اولٰی ہے۔ اِس کا انتہائی مظہر، اسلام ہے۔ وحدت کا تصوّر، اسلام کا جوہر ہے۔ اِس میں قطرہ اپنے وجود کی نفی کرتا ہے اور اپنے محدود وجود کو سمندر کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں قطرے کا وجود ختم ہو کر سمندر میں فنا ہوجاتا ہے اور دوسرے الفاظ میں قطرہ سمندر کے سامنے سرِتسلیم خَم کر دیتا ہے اور اصل وحدت جلوہ افروز ہو جاتی ہے۔ اسلام کا مطلب بھی خدا کی حقیقتِ مطلقہ کے سامنے سرِتسلیم خَم کرنا ہے۔

یہی وہ مقام ہے، جہاں عشق کا جذبہ، شہود و یقین کی بنیاد پر علمِ ذاتی اور دانشِ الٰہی کے سامنے سرِتسلیم خَم کرتا ہے، جو "میں" کے وجود میں پوشیدہ ہے اور دل کے کعبے میں خدا کی یکتائی کا شاہد بن جاتا ہے، اب کوئی فاصلہ نہیں رہتا اور دوئی مٹ جاتی ہے۔ یوں وہ اپنی جان اور زبان سے خدا کی یکتائی کی شہادت دیتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی بنیاد اصلِ وحدت پر ہے۔

قرآنِ کریم کی مندرجۂ ذیل آیتیں مختلف مذاہب میں موجود اصل وحدت کو وضاحت سے بیان کرتی ہیں:

"کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو ہم پر نازل ہوئی اور جو ابراہیم و اسماعیل و اسحاق و یعقوب اور اُس کی اولاد پر نازل کیا گیا اور جو کچھ اُن کے رب کی طرف سے موسٰی و عیسٰی اور سب نبیوں کو دیا گیا۔ ہم اُن میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں رکھتے اور ہم اُس کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے والے ہیں۔" (سورہَ۳/ آل عمران، آیت۸۴)

"اورجو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔" (سورہَ۳/ آل عمران، آیت ۸۵)

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی حقیقت بھی یہودیت اورعیسائیت کی مانند بدآموزی کا شکار ہوئی اور لوگوں نے محدود قومی اور معاشرتی اعتبار سے اِس کی تعبیریں کی ہیں۔ آج اسلام کے نام پر جو کچھ باقی ہے، وہ اسلام کی حقیقت سے بہت دور ہے۔

عرفان، دین کی محدود تعبیروں اور بدآموزیوں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اُنھیں قبول نہیں کرتا۔ عرفان 'اندھی تقلید' اور 'سچّے ایمان' کے فرق کو واضح کرتا ہے۔ دین کی حقیقت، دریافت، مشاہدے اورالہام کے ذریعے کشف ہونی چاہیے۔ عرفان ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے پیغمبروں نے اپنے 'کنہِ موجودیت' میں حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔

عرفان میں، قانون یا شریعت ا یک سفینے کی مانند ہے جو سمندر میں آگے بڑھنے اور راستہ طے کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ سفینہ جب تک خشکی میں ہے، بےکار ہے۔ سمندر، سالک کے لیے باطنی سفر اور راستے کی علامت ہے۔ سالک، سمندر کے اندرونی راستے پر اپنا روحانی سفر آغازکرتا ہے، تاکہ گہرائی میں موجود موتی تک رسائی حاصل کرے۔ موتی ہی حقیقت ہے۔ اِس حقیقت کی چمک دمک اوراِس کی نورانیت، شہود اورقلبی یقین میں آشکارہوتی ہے۔ یہی وہ منزل ہے، جہاں دین کی حقیقت انسان کے لیے ایک باطنی تجربہ بن جاتی ہے، اور حضورِاکرم (ص) کے فرمان کے مطابق انسان خدا کی احدیت کی گواہی دینے لگتا ہے:

اشہد ان لا الہ الااللّٰہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

ما کذب الفؤاد ما رأی "دل نے جو کچھ دیکھا، اُسے جھٹلایا نہیں۔" (سورہَ ۵۳/ نجم، آیت۱۱)