انسان: وجود میں ایک حقیقی اکائی

انسان ہستی میں ایک جامع اور حقیقی اکائی ہے۔
مولانا المعظّم حضرت صلاح الدّین علی نادرعنقا


نیوٹن کے عقائد اور نظریات اور اُس کی کُل ہستی کی پیش کردہ تصویر کو تین سَو سال سے زائد ہوچکے ہیں۔ اِس تصویر نے انسان، معاشرے اور ہستی کے بارے میں ہماری شناخت اور نتیجہ نکالنے میں نفوذ پیدا کر کے انھیں اپنے تحتِ تاثیر قرار دیا ہے۔ نیوٹن اپنے نظریے میں ہستی کو ایک ایسی مشین کی مانند قرار دیتا ہے جو بہت سارے پُرزوں اور اجزا سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ ساری مشین اور اس کی عملی صلاحیت کی معرفت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے چاہیے کہ اِس مشین کے ایک ایک پرزے کو الگ الگ کر کے ان کے کام میں استعمال ہونے کو مستقل طور پر جانا جائے۔ اس کے بعد ان کُل پرزوں کو جوڑ کر تمام مشین کی صلاحیت سمجھی جائے۔

ہم نے نیوٹن کی تھیوری اپنی دُنیا اور اِسی طرح اپنی ماہیت کے ادراک کی خاطر استعمال کی ہے اور کُل کو اجزا میں تقسیم کرتے ہوئے اور مختلف پہلوؤں میں فاصلے قرار دیتے ہوئے فرضی حدود کے قائل ہو چکے ہیں اور بتدریج ہم نے جزئیات کے گرد گھومتے ہوئے زیادہ مہارت حاصل کر لی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری بصیرت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس طرح ہم مشاہدے کی وسعت اور کُلّی بینش کھو چکے ہیں اور اپنے وجود کے بارے میں ایک محدود نتیجے پر قانع ہو گئے ہیں اور معاشرے اور ہستی میں ایک حقیقی اور جامع اکائی کے طور پر اپنی شناختِ انسانی حاصل کرنے سے محروم کر چکے ہیں۔

عصرِ حاضر میں، جب کہ ہم نئی صدی اور ہزاریےکی ابتدا میں ہیں، ہمیں چاہیے کہ کم از کم اس زمانے کے متداولہ علوم سے کام لیں۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں دنیا والوں نے کوانٹم (quantum) کے ذریعے ہستی کی واقعیت کو جانا اور زیر ایٹمی (subatomic) مرتبے میں اجزا کے درمیان روابط و ارتباطات سے آگاہی حاصل کی ہے۔ کوانٹم طبیعیات نے دنیا والوں پر ہستی کی حقیقت کا ایک اور پہلو کھول کر رکھ دیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ذرّات اور اجزا، جو نیوٹن کی تھیوری کے مطابق پہلے ایک دوسرے سے الگ فرض کیے جاتے تھے، اب زیر ایٹمی (subatomic) کی منزل میں تمام ایک دوسرے سے، ہمہ پہلو مربوط ہیں۔ کوانٹم طبیعیات نے ذرّات کے درمیان ارتباط کو واضح کیا ہے اور ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجّہ کیا ہے کہ کسی خالی فضا کا کوئی مفہوم اور کوئی فاصلہ نہیں اور جو کچھ عالمِ ہستی میں ہے، سب ایک دوسرے سے ہمہ پہلو مربوط ہے، لیکن انسان کی محدود دنیا میں اُس کی نظر سے مخفی ہے۔1

ہمارے زمانے کا علم و دانش حال ہی میں اِس نکتے کی طرف متوجّہ ہوا کہ انسان کا موجود ہونا دراصل ایک کُلیّت میں شامل ہونا ہے اور کُل ہستی کے ساتھ کامل ارتباط رکھنا ہے۔ محدودیت میں ہم نے صرف اپنے طبیعی(فیزیکی) پہلوؤں کو لیا اور روحانی اور ابدی پہلو سے صرفِ نظر کیا ہے۔

لندن کا مشہور ماہرِ طبیعیات ڈیوڈ بوہم (David Bohm) کہتا ہے: "سب چیزیں سب چیزوں کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہیں۔"2

یہ مظہر اور انکشاف عرفان کی اوّلین تعلیمات سے مطابقت رکھتی ہے،جو معتقد ہے کہ ایک حقیقی وجود ابدی وجودِ انسانی کی کُنہ میں موجود ہے جو لامتناہی وسعت کی حامل ہے اور اُسے کُل ہستی کے ساتھ مربوط کرتی ہے۔ اسٹینفورڈ (Stanford) یونیورسٹی کے دماغ اور اعصاب کے ماہر کارل پریبرام (Karl Pribram) کہتے ہیں:" اہلِ باطن کی کتب اور مخطوطات یہ مشخّص کرتے ہیں کہ اُنھوں نے عینی اور ظاہری پہلوؤں سے ماورا اسلوب اور راستے کو اور بشر کی حقیقی شناخت کو دریافت کیا ہے۔">3

عرفان دستور العمل اور شناخت کے حصول کی کیفیت اور انسان کی حقیقت کے کشف کرنے کی روش کو ایک جامع حقیقی اکائی کی عنوان سےتعلیم دیتا ہے اور اُسے اپنے وجود کے کُنہ میں وجود کی یگانگی کی شناخت کی قدرت عطا کرتا ہے۔


I- Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Theory "I" (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 155.
2- Ibid., 120.
3 Karl Pribram, interview in Omni, October, 1982, p.84