عرفان کیا ہے؟
دنیا کی موجودہ سرکش اور باغیانہ حالت اور اِس میں انسانوں کے غیرمستحکم باہمی تعلّقات، بہت سے ناپسندیدہ واقعات اور ماضی و حال کے بے بنیاد اور منتشر نظریات کی ارادی اور غیرارادی تلاش کا نتیجہ ہیں، لہٰذا تمام فطری اور جبلّی اقدار، امکانات اور انسانی وجود کی بنیاد میں موجود سرچشمے اِس وقت تباہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ خطرے کی علامت ہے جو اِس عہد کے انسانوں، بطورِ خاص دنیا بھر کے اہلِ فکر اور امن کے متلاشی افراد کو تحریک دے کر ہوشیار کر رہی ہے کہ وہ سوچیں اور بہت سنجیدگی سے غور کریں۔ یہی وقت ہے کہ حق کے الفاظ و الہام کو اور الله کے ان کلمات کو، جو قرآنِ پاک میں موجود ہیں، بغور سمجھا اور پڑھا جائے۔
يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ
"اُس وقت انسان پکار اٹھے گا کہ بھاگ جانے کا ٹھکانا کہاں ہے؟"
(سورۂ قیامت:۷۵، آیت۱۰) (75:10)
کیا آج کا دن وہ دن نہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ انسانیت بظاہر تو ترقّی کرتی نظر آئے، لیکن ساتھ ہی بے چین اور کینہ پرور بھی ہو؟ کیا اُسے وجود کی لامحدود کتاب میں موجود امن اور سکون جیسے سچّے الفاظ کو پہچاننا اور جاننا اور انسانی وقار کے سچّے ادراک سے اِس جہنّم زدہ زندگی کو اُس بہشتِ بریں میں تبدیل نہیں کر لینا چاہیے جس کا وعدہ کیا گیا ہے؟
یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہماری توجّہ اِن اہم سوالات کی طرف مبذول کراتے ہیں کہ امن کیا ہے؟ یہ کہاں اور کن حالات میں برقرار رہ سکتا ہے؟ انسانی تاریخ کے سات ہزار سال اور انسانی نسلوں کے ارتقا کے لاکھوں سال اِس امر کے گواہ ہیں کہ انتہائی شرمناک، ظالمانہ اور تباہ کُن اعمال کے اَن گنت جواز پیش کیے جاتے ہیں۔ آج انسانیت نہ صرف یہ کہ امن و سکون کے قیام کے مقصد کو حاصل کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے، بلکہ بہت سی سہولتیں پیدا کرنے والی سائنس کی بے پناہ ترقّی کے باوجود دنیا آج بھی سچّے سکون کے حصار سے بالکل باہر ہے۔
ایم ٹی او مکتبِ طریقتِ اویسی شاہ مقصودی® کے روحانی استاد حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا اپنی کتاب"امن و سکون" میں بیان فرماتے ہیں:
"صحیح منطقی فکر مطالبہ کرتی ہے کہ انسان کے لیے ایک مضبوط اور ٹھوس پیمانہ طے کرنا چاہیے، تاکہ ایک مضبوط نظام اور سماجی ڈھانچا طے کیا جا سکے اور اُس کے اطلاق کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جا سکیں۔ کوئی بھی لازمی نظام جو انسان کو جبریہ طور ہر کسی پہلے سے طے شدہ ڈھانچے کے مطابق چلانا چاہے اور جو اُس کی فطرت اور شخصیت کے مطابق نہ ہو، اُس کا نتیجہ بہت جلد تباہی اور بربادی کی صورت میں نکلے گا۔ صرف وہ سماجی نظام اور قوانین دائمی اور قابلِ اطلاق ہوں گے جو عقلی اور سائنسی طور پر انسان کے جوہرِ ذات کے مخالف نہ ہوں۔ اِس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ ہر انسان اور اس کی آفاقی شخصیت کو عرفان کے نقطہٴ نظر سے سمجھا جائے۔ یہی خدا کے پیغمبروں اور دین کی تعلیمات کا موضوع رہا ہے۔" 1
وجود میں امن اور دوام
ہمارے عہد کے عظیم عارف مولانا شاہ مقصود صادق عنقا اپنی کتاب "آوازِ خدایاں" میں انسانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
"انسانی عہد و پیماں فطرت کی سرنوشت میں تو واضح ہیں، مگر آدمی کے حواس کے لیے اجنبی۔"
تجرباتی علوم اور مختلف ترقّی یافتہ نظریات ہمارے نظامِ شمسی کا اندارہ لگاتے ہوئے اِسے اربوں سال قدیم بتاتے ہیں، لہٰذا کہکشاؤں اور دیگر نظام ہاےِ سیّارگاں کا اور اِس لامحدود کائنات کی قدامت کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔ تاہم اِس عرصہٴ وقت میں کائنات جاری و ساری ہے اور بہت سکون و اطمینان سے اجرامِ فلکی کی محوری گردش بغیر کسی غلطی کے قائم و دائم ہے۔ تمام موجودگی اور اِس کے باہمی تعلّق سے متعلّق اِس تقریبًا لامحدود سفر پر کون سے قانون کا اطلاق ہوتا ہے؟ ممکن ہے، اِس خصوصی اصول، یعنی اِن مادّوں اور اجسامِ فلکی کی بقا اور دوام کا سبب بننے والے اصل سرچشمے کی شناخت اور دریافت "امن و سکون" کے زیادہ حتمی اور گہرے معنی کو سمجھنے میں ہمارے لیے گراں قدر ثابت ہو۔
دوسری طرف جب بھی ہم اِس انتہائی وسیع نظامِ شمسی کے ڈھانچے کا تقابل ایٹم کے ڈھانچے کی ترتیب و تنظیم اور ساخت سے کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ زمین اور نظامِ شمسی کے دیگر سیّاروں کا ہر ہر عنصر، سب کے سب ایک طے شدہ نظام کے تابع ہیں۔ اِس مکمّل قانون کے اثرات اور اِس کی استقامت نے اِس لازمی طبیعیاتی استحکام کو ممکن بنا دیا ہے۔
جو محکم اور فیصلہ کُن عنصر تمام ذرّات کو حالتِ توازن میں رکھتا ہے، وہ اصلِ اطاعت و تسلیم ہے۔ اظہار کی تمام صورتوں، یعنی ذرّات اور ہمیشہ رہنے والی لہروں کی بقا دراصل وجودِ کُل کے محکم اور نافذ قوانین کی مکمّل اور مسلسل اطاعت میں مضمر ہے۔ ہر ہر ذرّے اور کہکشاں کی قسمت پر اور بطورِ خاص انسانی حقیقت پر حکمراں قانون کا ادراک ہمیں اُس عظیم علم سے رُوشناس کراتا ہے جو فطرت کی جبلّت میں شامل اور سچّے سکون کا سبب ہے۔2
امن اور بنی نوعِ انسان
"جس طرح قیمتی ہیرے دلدل میں رہ کر بھی خراب نہیں ہوتے اور خالص سونے کی معدنی رگیں خطّۂ زمیں میں بھی اپنی جگہ بنائے رکھتی ہیں اور سونے کی کان کی بھربھری خشک مٹّی سے خود کو آمیز نہیں ہونے دیتیں، بلکہ اُس مٹّی کے مقابلے میں اپنی چمک دمک کو پہچنواتی بھی ہیں اور اپنی علاحدہ شناخت بھی قائم رکھتی ہیں، اُسی طرح انسان بھی اپنے فطری اور خاکی وجود میں بہت سی ایسی منفرد خصوصیات کا حامل ہوتا ہے جو چمک دمک کی حامل ہوتی ہیں اور زندگی کا ایک مختلف بُعد رکھتی ہیں۔ یہ بہت قابلِ اعتبار اور ابدی بُعد ہر انسان کی ذات میں مخفی ہوتا ہے، جو اُس کی فطرت کی محدود جہت اور اُس کی ناپختہ سوچوں اور محسوسات کے لیے قابلِ رسائی نہیں ہوتا۔ انسان کے روحانی بُعد سے متعلّق اصل سچّائی کا ادراک ہی دراصل اُس کے بارے میں دائمی اور درست اصول کو متعیّن کرتا ہے۔"3
عرفان سکھاتا ہے کہ یہ دائمی بُعد کنہِ وجود انسان میں مخفی ہوتا ہے اور اُس کے محدود ادراک، افکار اور محسوسات کی دست رس سے باہر ہوتا ہے۔ اِس دائمی بُعد میں تمام مجبوریاں اور حدبندیاں ختم ہو جاتی ہیں اور نسل، گروہ، تہذیب اور جنس کا ہر فرق مٹ جاتا ہے۔ کسی فرد کے اِسی دائمی بُعد کی پہچان مستحکم اور قابلِ اعتبار اصولوں کو متعیّن کرتی ہے۔
پیغمبروں کی ہدایات اور اُن کے پیغامات انسان کے اِسی دائمی بُعد کی مخصوص اثرپذیری اور ایک خاص تربیت کے حصول کی صلاحیت کے مقصد کو پورا کرتے ہیں۔
عرفان وہ طریقہ اور نظام ہے، جس کے ذریعے انسان اپنے اِس ملکوتی اور دائمی بُعد کے ساتھ موافقت پیدا کر لیتا ہے۔
عرفان یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمام وجود، ایٹم سے لے کر کہکشاں اور انسانی وجود تک، یہ سب کے سب اپنے وجود میں موجود "آگاہ مرکزیت" کے حضور سرِ تسلیم خم کرتے ہیں اور اِنھیں خود اِن کے اندر موجود فطری علم سے رہنمائی حاصل ہوتی رہتی ہے۔
"انسان میں موجود اِس آگاہ اور نافذ مرکز کو عالی قدر صوفی مولانا المعظّم حضرت شاہ مقصود صادق عنقا نے سرچشمۂ حیات یا حقیقی 'میں' کا نام دیا ہے۔ 'میں' کا مرکز ہی دراصل مرکزِ آگہی ہے۔ یہ "میں جو سرچشمہٴحیات ہے، دراصل اِس کی دریافت ہی وہ پہلا قدم ہے جو انسان خود شناسی، امن و راحت اور انصاف کی سمت اٹھاتا ہے۔
امن اور معاشرہ
ایک خوش حال انسانی معاشرہ اُس وقت وجود میں آتا ہے جب اُس کے تمام افراد کے مابین ظاہری اور باطنی ہم آہنگی موجود ہوتی ہے اور یہ ہم آہنگ وجود، ایک نظامِ وحدت کے تابع ہوتا ہے۔ بغیر ان مقاصد کو حاصل کیے تمام بین الاقوامی قوانین اور سمجھوتے اور وہ تمام تنظیمیں موجودہ طریقوں کے ساتھ، ایک خوش حال اور پُرامن معاشرے کے قیام کے مقاصد میں بری طرح ناکام ہو جائیں گی، جو لفظ "امن" کے مفہوم کو پوری طرح سمجھے بغیر اِس کا استعمال کرتی ہیں۔ جب فردِ واحد کی حقیقی اہمیت کو پوری طرح تسلیم کر لیا جائے تو پھر اِن ہی اقدار کے مطابق دوسرے اصولوں کو بنانا اور اُن کا اطلاق کرنا بھی ممکن ہو جاتا ہے۔
لہٰذا جب تک کہ انسانیت اِس قابل نہ ہو جائے کہ وہ مشترکہ طور پر مفاہمت کے راستے تلاش کر لے، یہ ممکن ہی نہ ہو سکے گا کہ اُس سے متعلّق اصول بنائے جائیں، یا اُن کا اطلاق کیا جائے، یا کوئی سماجی نظام ترتیب دیا جائے جو اپنے وقت کے معیار پر پورا اتر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بغیر ٹھوس بنیادوں کے بنائے ہوئے سماجی اصول، کوئی پُراثر نتیجہ، یا مسائل کا حل پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
جب تک غور و فکر کرنے اور سماجی اور تعلیمی تبدیلی کی خاطر کام کرنے والی مفکّر تنظیمیں کوئی دائمی روحانی پیمانہ دریافت نہ کر لیں، اُس وقت تک مختلف نوعیت کے بے ثبات عوامل، مثلًا باہمی تعصّب یا ملکی سرحدوں کی وجہ سے انسانی رویّوں میں فرق جیسے مسائل کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکے گا۔
عرفان یہ تعلیم دیتا ہے کہ "دین مکاتبِ فکر اور فرقوں کی تمام تر تقسیم کے باوجود انسان کی اُس استقامت کا سبب ہے جس کی بنیاد دائمی سچّائی پر ہے۔" جیسا کہ قرآنِ پاک (سورۂ ذاریات:۵۱، آیات: ۵ اور ۶) میں کچھ یوں کہا گیا ہے:
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ (51:5)
وَإِنَّ الدِّينَ لَوَاقِعٌ (51:6)
بے شک (آخرت کا) جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے بالکل سچا ہے، اور بے شک دین واقعیت ہے۔
اسلام کا لفظ، "س ل م" سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں: امن اور سلامتی۔ امیرالمومنین حضرت علی ابنِ ابی طالب، جن کے الفاظ انسانیت کے لیے چراغ کے مانند ہیں، اِس مقدّس اور اصل مقصدِ حیات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اسلام وہی 'تسلیم' ہے، اور 'تسلیم' سے مراد عینِ واقعیت میں وجود کی ثابت قدمی اور استقلال ہے۔"
اسلام کی تعلیمات کا حتمی مقصد یہ ہے کہ وجود کے دائمی اصولوں کو دریافت کیا جائے اور آزادی اور انصاف کو تسلیم کیا جائے، جن کا پیمانہ اُتنا ہی وسیع ہے، جتنا لاانتہا، اور اُس کی بھرپور بجاآوری تمام افرادِ معاشرہ اور انسانی سوسائٹی کے لیے اُس حد تک سکون و طمانیت کا باعث ہے جس حد تک فطری اصول اور کائناتی قوّتیں اجازت دیتی ہیں۔ لہٰذا وہ لوگ جو بے پناہ عقیدت مندی اور عشق کے ساتھ اِس وجودی سچّائی کے سرچشمے سے منسلک ہیں، بے تحاشا نفسانی خواہشات ، تصادم اور خطاؤں سے پاک ہیں اور اُن کا وجود صرف محبّت، اخلاق اور امن و سکون کا پرچار کرتا ہے۔4
ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم صرف بہت دشوار، اور عظیم الشّان منصوبوں پر کام کرکے ہی یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں اور بجاے اِس کے کہ ہم مستقل طور پر یہ کوشش کریں کہ معاشروں کے لیے محض خوش گمانیوں پر مشتمل کوئی منصوبہ بنائیں اور اُس کا اطلاق کریں، اہلِ فکر اور اہلِ اقتدار کو یہ مشترکہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ذرائع مہیّا ہو سکیں جن کے ذریعے افرادِ معاشرہ اپنی بھرپور فطری صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔ اِس مقصد کے لیے تعلیمی نظام اور تربیتوں کے اُن منصوبوں پر، جو افراد کے لیے موجود ہیں، ازسرِنو نظر کرنی چاہیے اور اُن کو مؤثّر طریقے سے دوبارہ ترتیب دینا چاہیے، تاکہ افراد کی حقیقی صلاحیتوں کو بروے کار لایا جا سکے، جب تک خدا ترس اور بااخلاق اہلِ فکر ایسے درست تعلیمی طریقے دریافت نہیں کرلیتے اور موجودہ نظام کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے، یہ بالکل ناممکن ہے کہ انسانی معاشروں میں امن کے استحکام کا خواب پورا ہو سکے۔5
کسی بھی علم کے حصول کے لیے انسان کو ایک دانا معلّم اور استاد کے زیرِ ہدایت و نگرانی رہنا پڑتا ہے، تا کہ استاد کی ہدایات سے اُس علم کی انتہا تک پہنچ سکے، لہٰذا خودشناسی اور بُعدِ ابدی کے راہنما نقشے کے لیے کسی روحانی استاد، یعنی معلّمِ وجود کی ضرورت ہوتی ہے۔ عارف (معلّمِ وجود) کو حقیقت کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ خودشناسی کے سفر میں راہنمائی کر سکتا ہے۔
ساتویں صدی ہجری/ تیرھویں صدی عیسوی کے شاعر و عارف مولانا رومی مثنوی کی تیسری جلد میں کہتے ہیں:
"ہر کہ در رہ بی قلاووزی رود ہر دو روزہ راہ صد سالہ شود"
["بغیرِ رہنما، جو بھی سفر آغاز کرتا ہے
تو وہ دو دن کا رستہ سَو برس میں طے کرتا ہے"]
I. Molana Salaheddin Ali Nader Angha. Peace (Verdugo, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications,1987), 27. 2. Ibid., 30-31. 3. Ibid., 45-46. 4. Ibid,. 34. 5. Molana Salaheddin Ali Nader Angha. Theory “I”: The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 169. |