عرفان: پیغمبروں کا راست
عرفانی تعلیمات کے مجموعے "تصوّف و شناخت" سے ایک انتخاب 1
"خدا کی مقدّس قلمرو میں فقط قلب میں پوشیدہ راز ہی کام آتے ہیں۔"
حضرت مولانا صلاح الدّین علی نادر عنقا، پیرِ اویسی
پیغمبروں کی تعلیمات کی اصل اور جوہر کیا ہے، عرفان سے اُس کا کیا ربط ہو سکتا ہے اور اُس کا اثر ہمارے زمانے پر کس طرح پڑا ہے؟
اگر ہم پیغمبروں کی سیرت اور تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ اُنھوں نے اپنی تمام زندگی اپنے بھرپور عشق کے ساتھ اِس مقصد کے لیے وقف کر دی کہ اعلانِ حق کریں اور اُس بے مثال علم کا اعلان کریں جسے اُنھوں نے خود منکشف کیا ہے۔ اُن کا طریقۂ شناخت نہ تو گذشتہ لوگوں کے اقوال و اعلان کی پیروی کی بنیاد پر ہے، نہ کسی خوف اور مجبوری کی بِنا پر ہے، اور نہ ہی اُنھوں نے معاشرتی مسائل کے بوجھ تلے آ کر ایسا کیا ہے، بلکہ اُنھوں نے ایسا فقط دانائی کے حصول کے لیے اپنی اندرونی فطری طلب کے زیراثر کیا ہے، اور یہ طلب بھی خود اُن کے ذاتی تجربات کی بِنا پر اُن میں پیدا ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر مہاتما بدھ نے رنج اور مشقّت کو دیکھنے کے بعد، جو لوگوں کے لیے بیماری اور موت کی سوغات لاتی ہے، اپنی شاہانہ زندگی، خاندان اور محل سے جدائی اختیار کر لی، تاکہ اِن آلام کا سبب اور اِن سے نجات کا طریقہ دریافت کر سکیں اور جب تک اُنھیں حقیقت سے مکمّل جواب نہیں ملا، وہ محنت و مشقّت سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ ہوئے۔
حضرت ابراہیم (ع) کا کشف اِس حوالے سے تمام بتوں کے ٹوٹنے کا سبب تھا کہ اپنے ذہن کے بنائے اور پرورش کیے ہوئے دیوتاؤں، میلانات اور اوہام سے نجات پا لینی چاہیے، تاکہ خداے واحد کو پہچانا جا سکے اور اُس کے سامنے سرِتسلیم خم کیا جا سکے۔ خداوند کی ذاتِ یکتا کی شناخت، اُس تک رسائی اور اُس کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ دنیوی تعلّقات اور رشتوں ناتوں سے آزادی حاصل کی جائےـ جدائی کے درد سے نجات اور اطمینان و سکوں تک پہنچنے کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔
حضرت موسٰی (ع) نے فرمایا کہ دس اصول اور احکام ایسے ہیں جن کی پیروی کرتے ہوئے مادّی کشش اور میلانات پر قابو پایا جا سکتا ہے، تاکہ زندگی میں سکون و اطمینان کا مفہوم دریافت کیا جا سکے اور وہ سرزمینِ امن، جس کا وعدہ کیا گیا ہے، نصیب ہو سکے۔
حضرت عیسٰی(ع) نے فرمایا: تمام مادّی تعلّقات اور نفسانی خواہشات سے آزاد ہوجاؤ تاکہ تم خداوند کی ملکوت میں داخل ہو سکو۔ آپ نے ایک نوزائیدہ بچّے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اِس بچّے کی مانند پاک اور بے آلائش ہو جاؤ، ورنہ تم ہرگز خداوند کی ملکوت میں داخل نہ ہو پاؤ گے۔
حضرت محمد(ص)حقیقتِ نفس کی شناخت کا طریقہ سکھاتے ہیں اور فرماتے ہیں: "جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اُس نے حقیقتًا خدا کو پہچانا۔"
اصل میں تمام پیغمبروں کے پیغام میں یہی نکتہ موجود نظر آتا ہے کہ "اپنے آپ کو پہچانو۔" "میں کے ازلی و ابدی وجود" کی شناخت اور انکشاف، جو جاودانہ ہے، محض ہمارے خاکی بدن، نفسانی ضرورتوں اور طبعی، کیمیائی اور نفسیاتی فعل و انفعالات تک محدود نہیں ہوتا، جو ہمیشہ سے اُس کے ساتھ ہیں۔
اِن تمام ارشادات میں پیغمبروں کا اشارہ محض ہمارے طبعی اعضا، یعنی دماغ اور اُس سے متعلّقہ نظام یا حافظے اور محدود حواس کی کارکردگی کی طرف نہیں ہے۔ اُنھوں نے کبھی اکتسابی کردار و سلوک اور اُن عقائد کی طرف، جو معاشروں نے جمع کیے ہیں اور جن پر عمل کیا جاتا ہے، کوئی توجّہ نہیں دی ہے۔
اُن کی تعلیمات کا مرکزِ توجّہ مسئلۂ "وجود" کا وہ مستحکم جوہر ہے جو پیدائش کی ابتدا سے بچّے کے ساتھ ہوتا ہے اور سارے بچپنے سے بڑھاپے تک اُس میں قائم رہتا ہے، کیوں کہ ہر چیز: بدن، عقائد، خواہشات، افکار، اہداف وغیرہ میں تبدیلی آ جاتی ہے، سواے اُس قائم جوہر، یعنی "میں" کے، جو ہمیشہ قائم اور باقی ہے۔
عرفان دراصل ایک نظام ہے، ایک ایسی راہ اور ایک ایسا طریقہ، جو ہر فردِِ کو سکھاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے وجود کی حقیقت کو جانے اور اپنے وجود کی "میں" کو پہچانےـ اِس مرکزِ دانائی و سرچشمۂ حیات تک رسائی پانے کے بعد ہمیشہ امن اور توازن کے ساتھ زندگی گزارے۔ عرفان وہ طریقہ ہے، جس کے سبب پیغمبروں، یعنی دانشمندانِ عصر نے خدا کا کشف اور "میں" کی دریافت حاصل کی ہے۔ اور اہلِ عالم کی نجات کے لیے حقیقت کا اعلان فرمایا ہے۔