اصلِ ہم آہنگی

غالبًا یہ تصوّر پیش آتا ہے کہ انسان اور حقیقتِ ہستی کے در میان، مادّے اور توانائی کے درمیان اور دوسرے الفاظ میں بشر اور اس کے خالق کے درمیان کوئی فاصلہ اور جدائی موجود ہو، لیکن در اصل کوئی فاصلہ اور جدائی کا وجود نہیں، بلکہ عدمِ ہم آہنگی اور ہم سطحی ہے جس نے یہ مجازی فاصلے ایجاد کر کے اور حقیقی شناخت کو غیر ممکن بنا ديا ہے۔ انسان فطری طور پر وجودی ہم آہنگی اور اعتدال کا حامل ہے، لیکن مفروضہ حدود کی وجہ سے، جن کا وہ اپنے جسم اور فکر کے لیے قائل ہے، اپنی حقیقی ہوئیت کو، جیسے کہ وہ ہے، نہیں پہچان سکتا۔

انسان اپنی موجودہ محدوديت میں حقیقت کی دریافت پر قادر نہیں ہے۔ حِسّی حدود سے عالی تر حقائق کی دریافت کے لیے حواس اور قویٰ سے بڑھ کر ایک غیر معمولی قوّت کا ہونا لازمی ہے۔

جس چیز کو انسان حواس کے محدوديت کے اندر رہ کر دریافت نہیں کرسکتا۔ اُسے اَن سُنی اور اَن دیکھی سمجھتا ہے، اور اسے قانونِ محدودیت کے تحت قبول کرتا ہے اور اُس کی نفی کرنے پر تُل جاتا ہے۔ جب کہ مشکل، عدمِ ہم آہنگی ہے، ہمارے حواس میں سے ہر ایک، ایک خاص صلاحیت کی حامل ہے اور نور، آواز، بو اور گرمی کی پہچان کرنے کی قوْت رکھتے ہیں، لیکن جس چیز کو ہم حواس استعمال کرتے ہوئے محدوديت ميں تجربے کے ذریعے نور، آواز، بو اور گرمی کی حیثیت سے جانتے ہیں، وہ دراصل مختلف طولِ امواج کے ساتھ کئی امواج ہیں۔ بلند امواج، گرمی اور حرارت اور چھوٹی امواج آواز اور نور کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ اِن مختلف طولِ امواج میں توانائی کا مظاہرہ مذکورہ حواس میں سے ہر ایک اپنی استعداد اور وصول کرنے کی نسبت سے ایک جلوہ اور ظہور رکھتا ہے؛ جب کہ اس توانائی کی اصل، دوسرے الفاظ میں اس کی قابلیت، مستحکم اور غیر تغیْر پذیر ہے۔ چوں کہ ہم حواس کی محدوديت میں رہ کر اُس سے کام لیتے ہیں، اِس لیے مطلق توانائی کے صرف ایک حصْے کا تجربہ اور تشخْص کرسکتے ہیں۔

ہم آہنگی کا حصول قوْتوں کی جمعيت اور "میں" کی مرکزیت میں ان کے تمرکز کے طريقے سے، دوسرے الفاظ میں قلب کے "عقدۂ حیاتی" کی طرف، یعنی اس نقطے اور مرکز کی طرف جس نے پہلی بار اپنی حیات کو مادْے کی صورت میں عالمِ امکاں میں پیش کیا ہے، رجوع سے میسْر آتا ہے۔ قوْتوں کا تمرکز قلب کی مرکزیت میں ہوتا ہے، جو لازمی ہم آہنگی اور حیات کی حرکت کا سبب بنتا ہے۔ مثال کے طور پر لڑھکے ہوئے پتْھروں کی حرکت کے لیے، جنھوں نے راستہ بند کر دیا ہے، چاہیے کہ ایک لیور کو پتْھر کے وزن کے مرکز میں رکھ کر اس پر قوْتوں کو یک جا کر کے اس پتْھر کو ہٹایا جائے، بالکل اسی طرح "میں "کی مرکزیت میں تمام قوْتوں کی يک جائی اور تمرکز سے محدوديت کی دیوار توڑ کر لازمی ہم آہنگی حاصل کر کے انسان اپنے لطیف پہلوؤں کو دریافت کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔

عرفانی تعلیمات کی بنیاد پر خاص اساليب، مثلًا تمرکز(صوفی مراقبہ) ®، ذکر (حسنِ رخِ دوست کی یاد) اور نماز کا استعمال ہمیں قادر بناتا ہے کہ ہم اپنی قوْتوں اور توانائی کو مجتمع کر کے، اور انھيں مرکزيت ديتے ہوئے خود ميں موجود فطری ہم آہنگی کو حاصل کر کے، اپنے وجود کی لطیف جہات کو پہچان کر، اپنی زندگی میں ایک توازن اور اعتدال سے بہرہ مند ہوں۔


I-Nader Angha, Theory "I": The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 110-112.