یگانگی وجود

کُلُّ فی فَلَکٍ یَّسبَحُون - قرآن کریم – (سورہ۲۱/ انبیا، آیت ۳۳)


۱۴۰۰برس سے زائد ہوئے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا:'' جس کسی نے اپنے آپ کو پہچانا، یقینًا اُس نے اپنے پروردگار کو پہچانا۔'' اسلام میں انسانی وجود کی ثابت ہوئیت اور حقیقت، دوسرے الفاظ میں اُس کی حقیقی "میں" دراصل وہی حقیقت اور ذاتِ الٰہی ہے جو اُس کے کنہِ وجودی میں پوشیدہ ہے۔ اسی دلیل کی بِنا پر وجود کی یگانگی (وحدت) کا قانون اور خدا کی یگانگی پر ایمان شہادتِ"لا اِلٰہ اِلّا اللہ"( کوئی خدا نہیں، سِواے اللہ کے) میں تجلّی پاتی ہے۔ یہ قانون اُس واقعیت کو بیان کرتا ہے کہ انسان اور خداوندِ عالم کے درمیان کوئی جدائی اور فاصلہ واقع نہیں اور (انسان کا انتہائی بلند مقام و مرتبہ ایک ایسا شرف ہے جو خداوندِعالم نے اُسے عطا فرمایا ہے۔ خداوندِعالم قرآنِ کریم کی (سورہ ۵۰/ق آیت ۱۶) ¹(میں ارشاد فرماتا ہے: "و نحن اقرب الیہ من حبل الورید" ("اور ہم اُس کی رگِ جاں سے بھی اُس سے زیادہ قریب ہیں۔

حضرت محمّد (ص) نے انسان کے وجود کی واقعی شناخت اور اُس کی کیفیت کے حصول کا دستورالعمل تعلیم فرماتے ہیں اور اُس شناخت کو دانشِ ازلی اور علمِ ذاتی تسلیم کرنے میں میسّر اور ممکن جانتے ہیں جسے انسان کے کنہِ وجودی میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں 'تسلیم' سے غلط مطلب اخذ کیا گیا ہے اور اِسےکم زوری اور بھیڑ چال کے معنوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، حالاں کہ خرافات کے محدود پہلوؤں کا اختیار، اندھی تقلید اور بھیڑچال انسان کے معنوی مقام و مرتبے کے شایانِ شان نہیں۔

دراصل مظاہرِ ہستی کے متوازن مجموعے میں ذرّات کو یک جا رکھنے کی عامل، اور ثابت شرح اصلِ تسلیم ہی ہے۔ وجود کی کیفیت اور تمام ہستی میں موجود نظاموں کی بناوٹ کا موازنہ کرتے ہوئے، ذرّات سے لے کر کہکشاؤں تک اِسی اصول کو پاتے ہیں کہ وجود کے تمام کُلّی مظاہر اصل تسلیم کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی عالم کی مرکزیت میں پوشیدہ علم ذاتی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ اِس اصول میں انسان بھی شامل ہے۔ چوں کہ ہستی یگانہ ہے اور جو کچھ بھی ہے، ہمہ پہلو علمِ ہستی کے سامنے سرِ تسلیم خم ہے۔ جس وقت انسان اپنے اندر پوشیدہ علمِ ذاتی کے سر چشمے کو جان لے، اور دوسرے الفاظ میں، اپنی حقیقی "میں" کو پہچان لے تو اس میں پوشیدہ دانش کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیتا ہے اور یہ وہی آزادی ، نجات ، عشق اور جذبے کا مرتبہ ہے جو بلند مقام عرفا کی کتابوں میں صدیوں سے جلوہ افروز تھا اور ہے۔2  اِس بارے میں امیرالمومنین علی(ع) کا قابلِ قدر اور راہ نما اور عالمِ بشریت کے لیے روشن چراغ کی مانند کلام موجود ہے کہ آپ (ص)فرماتے ہیں:

اسلام وہی 'تسلیم' ہے
اور 'تسلیم' وجود کی عینِ واقعیت میں
استقرار اور ثابت قدمی سے عبارت ہے ۔

ایسا تسلیم اور ثابت قدمی حیات بخشی اور احیاے اسلام کی علامت ہے، کیوں کہ یہ ایک باطنی تبدیلی اور انقلاب کے اسباب کو انسانی وجود کے کُنہِ مرکزیت، یعنی قلب میں فراہم کرتا ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں تمام مفروضہ حدود،فاصلے،اور موہوم دوئی کے پہلو ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان علم و یقین سے وجود کی یگانگی کی شہادت دیتا ہے۔ ایسی شہادت، جو کلام تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ سالک کا جسم، جان و فکر اوردوسرے الفاظ میں، اُس کا وجود ایک ہمہ پہلو کلّیّت میں خداوندِ یگانہ کے حضور کو متجلّی کر لیتا ہے۔۔3


1. Molana Salaheddin Ali Nader Shah Angha, Sufism and Knowledge (Washington D.C.: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1996), 20-21.
2. Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Theory "I": The Inner Dimension of Leadership (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 2002), 166.
3. Ibid., 166.