حجاب کی حقیقت

حجاب کیا ہے؟
"حجاب غفلت": وہ پردہ جو کسی حقیقت پر ڈال دیا گیا ہو۔
حجاب بعنوانِ روحانی محافظ اور باطنی پردہ۔
حجاب بعنوانِ عورتوں کا لباس۔

حجاب کیا ہے؟

اسلام میں حجاب کے موضوع پر بڑی تفصیلی بحثیں ملتی ہیں اور اِس ضمن میں بہت سے نقطہَ نظر سامنے آئے ہیں، لیکن لفظ "حجاب" کا اصلی مطلب کیا ہے؟ اس کے لیے ہمیں لفظ 'حجاب' کے مشتقات پر غور کرنا ہوگا۔ عربی زبان میں 'حجاب' کا لفظ 'پردہ' اور 'لباس' کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مروّج، جدید عربی میں اس لفظ کا مطلب مسلمان خواتین کا لباس ہے، لیکن 'حجاب' کا لفظ بڑے وسیع اور جامع معنی کا حامل ہے اور صرف خواتین کے لباس تک محدود نہیں۔ لفظ 'حجاب' کے حقیقی مفہوم کا جائزہ لینا اور اس کو سمجھنا ضروری ہے۔

حجاب غفلت

غفلت کا حجاب دراصل ایک تاریک پردے کی مانند انسان کے وجود کو ڈھانپے رکھتا ہے اور اُسے خدا کا تقرّب حاصل کرنے اور اُس کے نزدیک ہونے سے روکتا ہے اور اُس کی باطنی اور ذاتی شناخت کے حصول میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بہت سی پست صفات و خصوصیات اور منفی اور ناموزوں کردار جیسے خودغرضی، حرص، مادّہ پرستی، تکبّر، خود پرستی، حسد اور عارضی خواہشات کی پیروی اور اسی طرح حواس اور دوسری توانائیوں سے محدود کام لینا، یہ سب ایک وزنی اور تاریک پردہ بن کر انسان کے کنہِ وجود میں موجود حقیقت کو ڈھانپ لیتے ہیں اور دلوں میں انوارِ الٰہی کی تجلّی کے لیے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان اپنی حقیقی "میں" کی شناخت پر قادر نہیں رہتا اور صرف حقیقت کے ایک نامعلوم تصوّر پر اکتفا کرتا ہے۔

ہماری محدود سمجھ اور عقل دراصل ایسا حجاب اور پردہ ہے جو حقیقت کے اوپر ڈال دیا گیا ہے۔ ہم اپنی دینی تعلیمات کو محض سنتے اور دہراتے ہیں اور اگر چہ ہم جانتے ہیں کہ "الفاظ ناقلِ معانی نہیں ہوتے،1" مگر الفاظ میں پوشیدہ حقیقت کو دریافت کرنے کے بجاے ہم صرف اپنی خواہشات اور میلانات سے مطابقت رکھنے والے مفہوم سے سروکار رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم عبادت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، لیکن ہم اکثر عبادات کو اُس یکتا معبود کے حقیقی تقرّب اور یاد کی خاطر بجا نہیں لا رہے ہوتے، بلکہ اپنی خواہشوں، ضرورتوں اور کمزوریوں کے وجہ سے عبادت کرتے ہیں۔ ایسے میں ہمارا تصوّر صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم عبادت کر رہے ہیں اور یہ تصوّر خود ایک حجاب ہے، جو خدا سے تقرّب اور وحدت کے حصول میں رکاوٹ بنتا ہے۔ قرآنِ کریم میں وضاحت ہے کہ غافلوں کی آنکھوں، کانوں اور دلوں پر ایک پردہ ہوتا ہے۔ اِسی بنا پرحقیقت کے متلاشی سالک کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ غفلت کے اِس پردے کو تزکیہَ نفس اور عبادت کے ذریعے چاک کرے اور بالآخر اتار پھینکے۔

"خدا نے اُن کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔"<br> (قرآن کریم، سورہَ بقرہ:۲، آیت۷)

پیغمبرِ اکرم حضرت محمّد(ص) نے فرمایا کہ تمھارے اور حق کے درمیان ستّر ہزار نور و ظلمت کے حجاب ہیں۔ ظلمت کے حجاب سے مراد جہالت اور نادانی کے حجاب ہیں، جنھیں انسان اپنی تنگ نظری اور کمزوریوں کے ذریعے بناتا ہے؛ اور نور کے حجاب سے مراد وہ روشن مراتب اور آفاق ہیں جو سیر و سلوک کی منزل میں مومن کے (مطلعِ) دل پر چمک اُٹھتے ہیں تا کہ اس کے راستے کو روشن کریں اور وہ اپنے سفر کو انتہائی مقصد کے حصول تک جاری رکھے۔ یہاں ہر ٹھہراو اور جمود ایک حجاب ہے جو اسے اس کے راستے سے روکے رکھتا ہے۔

"ہم عن قریب اپنی نشانیاں سارے آفاق میں اور خود ان کی ذات میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ وہ حق ہے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ تمھارا پروردگار ہر چیز پر گواہ ہے۔"

(قرآنِ کریم، سورهَ حٰم السّجدۃ:۴۱، آیت۵۳)

حجاب بعنوانِ روحانی محافظ اور باطنی پردہ

روحانی حجاب اور باطنی پردہ وہ ہے جو ہر لمحے ایک باطنی محافظ کی مانند حق کے طلب گار سالک کو مسائل، پریشانیوں، اطراف کے ماحول کے شور شرابے اور اسی طرح منفی خصوصیات اور پست صفات سے دور رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ محافظ ایک محکم حصار کی مانند روزمرّہ کے مسائل، تبدیلیوں، مشکلات، پریشانوں اور سختیوں کے اثرات سے انسان کے باطنی حریم کو بچاتا ہے اور ایک مناسب ماحول اور فضا فراہم کرتا ہے، جس میں اس کی باطنی قابلیتوں کی پرورش ہو سکے، مثلٓا بیج کا بیرونی چھلکا جو مٹی کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے، دراصل ایک محافظ ہوتا ہے، جو بیج کے لیے یہ ممکن بناتا ہے کہ وہ خود بہ خود رُشد و نمو پائے، تا کہ نتیجتٓا مناسب وقت آنے پر یہ سخت چھلکا اتر جائے اور اِس میں سے پودا سر ابھار سکے۔ یہی مثال انسان پر بھی صادق آتی ہے۔ اُسے بھی ایک محافظ پردے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ بیرونی مسائل کے خلاف مزاحمت کر سکے اور اِس طرح اُس کے کنہِ وجود میں پوشیدہ قابلیتوں کی پرورش اور رُشد و نمو کے لیے مناسب حالات فراہم ہوں، تا کہ وہ اپنے وجود کی شناخت حاصل کر کے توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ یہی وہ حجاب ہے جو راہِ حق کے تمام سالکوں کے لیے در اصل واجب ہے۔ نماز، روزہ، ذکر و دعا اور تمام احکام شرعی کے بجا لانے کا مقصد انسانی وجود کی باطنی لطافتوں کی پرورش کے لیے لازمی ماحول فراہم کرنا ہے، تاکہ انسان خداوندِعالم کے پیام تک رسائی حاصل کر سکے۔

(قرآنِ کریم، سورہَ الشورٰی:۴۲، آیت۵۱)

"اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ خدا اُس سے کلام کرے، مگر وحی (معنوی الہام) سے، یا پردے کے پیچھے سے، یا کسی رسول (پیام بر) کو بھیجتا ہے، پس وہ وحی کرتا ہے، اُس (خدا) کے اذن (اجازت) سے جو کچھ خدا چاہتا ہے۔ بے شک وہ عالی رتبہ اور حکمت والا ہے۔"

مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی ® کی تعلیمات کے مطابق اس نورانیت کے فیض کا سرچشمہ انسان کے کنہِ وجود، یعنی مومن کے قلب میں موجود ہے۔ حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا پیرِ اویسی نے اس سرچشمہَ حیاتی کو "عقدۂ حیاتی" کا نام دیا ہے۔ وہ تعلیم فرماتے ہیں کہ انسان کے جسم میں ۱۳/ برقناطیسی مراکز واقع ہیں۔ اِن برقناطیسی مراکز کو فعّال بنا لیا جائے تو وجودِ انسان کی واقعیت اور روحانی شناخت کے لیے ضروری ہم آہنگی فراہم ہوجاتی ہے۔ "عارف" اور دوسرے الفاظ میں "معلّمِِ وجود" دراصل مشعلِ راہ کی مانند ہے جو خودشناسی کے سفر میں سالک کی رہنمائی کرتا ہے۔2

حجاب بعنوانِ خواتین کا لباس

حجاب کی تاریخ
معاشروں میں حجاب کے معنی میں سب سے زیادہ مروّج معنی وہ نقاب ہے جو خواتین پہنتی ہیں۔

مقدّس صحیفوں میں حجاب کے بارے میں موجود احکام کے تعلّق سے محققین اِس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسلام میں حجاب خواتین کے لباس کے معنوں میں جبر کی صورت میں نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ حجاب وحی قرآن کے نزول سے قبل کے زمانے سے رائج تھا۔ سر کا ڈھانپنا ظہورِ اسلام سے بہت پہلے عربوں کے دوسرے ممالک سے رابطوں اور میل جول کی وجہ سے عرب معاشرے میں رائج ہو چکا تھا۔ اُس وقت حجاب خاص طبقے کی خواتین کے لیے مخصوص تھا، جو اُن کے اعلٰی سماجی مرتبے کی علامت تھا۔

لیلٰی احمد اپنی کتاب بعنوان 'اسلام میں عورت اور صنف: ایک جدید بحث کا تاریخی پس منظر" میں لکھتی ہیں کہ ساسانیوں کے دور میں اسی طرح حجاب پہنا جاتا تھا اور عورتوں کو معاشرتی امور سے الگ رکھنے کی رسم، مشرقِ وسطٰی کے عیسائیوں اور بحیرہَ روم کے ساحلی علاقوں کے لوگوں میں ظہورِ اسلام سے قبل بڑی سختی سے رائج تھی۔ حضورِ اکرم (ص) کے زمانے میں، اور وہ بھی صرف آپ کی زندگی کے آخری دور میں، صرف آپ کی ازواجِ مطہّرات حجاب کرنے کی پابند تھیں۔ 3

وہ اس کے بعد لکھتی ہیں:

"یقیناً حجاب حضرت محمّد(ص) کے ذریعے عرب معاشرے میں متعارف نہیں ہوا، بلکہ یہ معاشرے کے چند خاص طبقوں میں پہلے سے رائج ایک رسم تھی، جس کا تعلّق معاشرتی مقام و منزلت سے تھا۔ یونانیوں، رومیوں، یہودیوں اور آسوریوں میں مختلف طریقے سے حجاب رائج تھا۔ قرآنِ کریم میں صراحت کے ساتھ حجاب تجویز نہیں کیا گیا ہے اور خواتین کے لباس کے بارے میں آیات محدود ہیں اور عورتوں کو ستر اور سینہ چھپانے کا حکم دیتی ہیں۔ (سورہَ نور:۲۴، آیات ۳۱/ اور ۳۲)۔ حضورِ اکرم (ص) کی زندگی میں صرف آپ کی ازواجِ مطہّرات حجاب کرتی تھیں اور یہ حدیث کہ: "اس نے حجاب کیا" اصطلاحٓا اِن معنوں میں تھی کہ وہ خاتون حضور کی زوجیت میں آ گئیں۔ لہٰذا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ پھر حجاب کس طرح معاشرے میں رائج ہو گیا۔ زیادہ احتمال یہ ہے کہ اِس کی اصل وجہ وہ اثرات ہیں جو اُس وقت عرب معاشرے پر پڑے تھے، جب مسلمانوں نے وہ علاقے فتح کیے جہاں اُمرا کے طبقے کی خواتین اپنی دولت مندی اور اعلٰی سماجی رُتبے کے اظہار کے طور پر حجاب کرتی تھیں۔ اِس کے علاوہ حضورِ اکرم (ص) کی ازواج کو عملی نمونہ قرار دینے کی وجہ سے بھی حجاب کا رواج عام ہوا۔"4

آج کل حجاب کے لیے 'چادر' کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔ اس کی بنیاد بھی قبلِ اسلام کی طرف لوٹتی ہے کہ اشرافی دولت مند خواتین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ محمل میں لے جایا جاتا تھا، جس کے اردگرد چادر لگائی جاتی تھی۔5

جان اسپوزیتو، جو جارج ٹاؤن کی یونیورسٹی میں تحقیقاتِ اسلامی کے پروفیسر ہیں، لکھتے ہیں کہ حجاب پہننے کی رسم دراصل ایران اور مشرقی روم کو فتح کرنے کے بعد رائج ہوئی اور اس کے بعد اُسے قرآن کی اسلامی اقدار کے عنوان سے یاد کیا جانے لگا۔ قرآنِ کریم میں عورتوں کو الگ رکھنے کی کوئی صراحت موجود نہیں، بلکہ اس کے برعکس اسلام خواتین اور مردوں، دونوں کو معاشرے میں دینی امور میں شرکت کی تاکید کرتا ہے۔6

شیخ محمد غزالی نے اپنی کتاب بعنوان "فقہ و حدیث میں سنّت" میں تمام ایسی رسوم کو، جو پسماندگی اور جہالت کا سبب بنتی ہیں اور عورتوں کو معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکتی ہیں، دراصل جاہلیت کے زمانے کے افکار اور اعمال کہا ہے۔ ایسی روشیں روح اسلام کے برخلاف ہیں۔ غزالی مزید کہتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام کے زمانے میں خواتین مساوی درجہ رکھتی تھیں اور گھر میں اور میدانِ جنگ میں شرکت کرتی تھیں، مگر آج حقیقی اسلام، 'اسلام' کے نام پر نابود ہوچکا ہے۔7

شیخ غلائینی اپنی کتاب "اسلام: روحِ تمدّن" میں یاد دلاتے ہیں کہ حجاب قبلِ اسلام کے زمانے کی رسم ہے اور مسلمانوں نے دوسری اقوام سے اپنے میل جول بڑھنے کی وجہ سے اس رسم کو اپنا کر رائج کیا ہے۔8

نذیرہ زین الدّین نے بھی اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ حجاب صرف امیر خاندانوں میں رائج ایک رسم تھی جو ان کی معاشرتی حیثیت اور مقام و مرتبے کو ظاہر کرتی تھی۔
اسی طرح وہ شیخ عبدالقادر سے یہ قول نقل کرتی ہیں کہ وہ بھی حجاب کو معزّز اور خوش حال خاندانوں میں رائج ایک رسم کہتے ہیں جو انھیں دوسرے خاندانوں سے ممتاز کرتی تھی۔ نذیرہ زین الدّین نے اِس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آج کل حجاب جس انداز سے رائج ہے، یہ شریعتِ اسلامی کے مطابق نہیں۔9

آایک اَور مسلمان محقق، عبدالحلیم ابوشیق نے اسلام میں عورت کے موضوع کے بارے میں اپنی کتاب بعنوان "پیامبرِ اکرم(ص)10 کے زمانے میں عورتوں کی آزادی" میں ایک جامع تحقیق پیش کی ہے اور وہ نذیرہ زین الدّین اور غزالی کے ہم خیال ہیں کہ حضرت محمّد(ص) کے زمانے میں عورتیں اپنے مرتبے اور منزلت کے اعتبار سے آج کی عورتوں سے بہتر حالت میں تھیں۔

آج ایک صدی سے زیادہ عرصے سے حجاب کے پہننے اور نہ پہننے کا موضوع اسلامی معاشروں میں اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے۔

مراکشی ماہرِ سماجیات فاطمہ مرنیسی نے اپنی کتاب "مرد اشرافیہ اور حجاب" میں اسلامی خواتین کے حقوق کی طرف داری کرتے ہوئے قدامت پرست معاشروں میں صنفی امتیاز کی بنیاد پر مردوں عورتوں کی علیحدگی کو مذہبی اداروں کی حاکمیت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اُس پر سخت تنقید کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مقدّس کتابوں کے متن میں تحریف کر کے اور انھیں خاص انداز سے ترتیب دے کر اپنی پسند کے معنی پہنائے گئے ہیں۔ اِسے وہ اسلامی معاشرے میں خواتین کے حقوق کے خلاف طاقت کا استعمال قرار دیتی ہیں۔ 11

قرآنِ کریم میں "حجاب" سے متعلق آیات

حجاب کی تاریخ اور اس کے مقصد سے قطعِ نظر موجودہ زمانے میں حجاب کے اصولوں کو اسلامی شریعت میں ایک قانونی شکل دے دی گئی ہے اور اِس سلسلے میں قرآنِ کریم کی چند آیات کو بنیاد بنا کر حجاب کو خواتین پر مسلّط کیا گیا ہے اور وہ آیات یہ ہیں: سورہَ نور کی آیات ۳۰/ اور۳۱/ اور سورہَ احزاب کی آیات ۵۸/ اور۵۹۔

(سورہَ نور:۲۴، آیات ۳۰/اور۳۱)

قرآنِ کریم عفّت اور پاک دامنی کے حوالے سے اپنا واضح اصول سورہَ نور:۲۴، کی آیات ۳۰/ اور ۳۱/ میں بیان کرتا ہے۔ یہ اصول مرد و زن، دونوں کے لیے یکساں ہے۔

"مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیا کی حفاظت کیا کریں، یہ اُن کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے؛ اور جو کام یہ کرتے ہیں، بے شک اللہ اُن سے باخبر ہے۔" (قرآنِ کریم، سورۂ نور:۲۴، آیت۳۰)

"اورمومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیا کی حفاطت کیا کریں اوراپنی آرائش کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں، مگر جو خود نمایاں ہو رہا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے شوہر اور باپ اور سُسر اور بیٹوں اور شوہر کے بیٹوں، اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی ہی قسم کی عورتوں اور کنیزوں اور غلاموں، نیز اُن خدّام کے سوا جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں، یا ایسے لڑکوں کے سوا، جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں، کسی اَور پر اپنی زینت اور آرائش کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں کو زمین پر اِس طرح نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اے مومنو! تم سب اللہ کے آگے توبہ کرو، تاکہ فلاح پاؤ۔" (قرآن کریم، سورۂٔ نور:۲۴، آیت ۳۱)

مندرجۂ بالا آیات کے مطابق مسلمان مرد اور مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ عفّت اور پاک دامنی اختیار کریں۔ اپنی نگاہوں اور اعمال کا خیال رکھیں۔ عورتوں کے لباس میں صرف سینوں کو چھپانے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم نے اس بارے میں جزئیات بیان نہیں کی ہیں اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے میں کوئی سزا بھی مقرّر نہیں کی ہے۔

ممتاز محققین میں سے ایک اہم محقق محمد اسد 12 نے سورہَ نور:۲۴، آیت ۳۱/ کی تفسیر یوں کی ہے:

"لفظ 'خیمار،' جس کی جمع 'خمور' ہے، اس آیت میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ سر کی اوڑھنی کے معنوں میں ہے جو ظہورِ اسلام سے قبل اور بعد عرب خواتین میں زینت و آرائش کے لیے استعمال ہوتی تھی، حجاب کے لیے نہیں۔ اکثر قدیم مفسرین کے خیال میں 'خیمار' اسلام سے قبل صرف آرائش کی چیز تھی۔ عورتیں اسے سر پر رکھ کر فیشن اور رسم کے مطابق پیچھے کی طرف ڈال دیا کرتی تھیں۔ اُس زمانے میں عام طورپرعورتوں کی قمیض کا گلا سامنے سے کھلا ہوتا تھا، لہٰذا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ عورتیں 'خیمار' کے ذریعے اسے ڈھانپ لیں۔ یہ لفظ 'خیمار' حضورِ اکرم (ص) کے زمانے میں خاصا جانا پہچانا اور مروّج تھا، مگر اوپر کی آیت کے ایک حصّے کے مطابق جس میں یہ حکم آیا کہ: "مگر وہ جو خود نمایاں ہوجائے،" تو یہ حکم سینے کے بارے میں نہیں تھا۔ سینے کا ڈھانپنا تو لازم قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ سینہ چھپایا جائے اور اُسے نمایاں نہ کیا جائے، مگر سر چھپانے پر مجبور نہیں کیا گیا ہے۔ حجاب کے معاملے میں مومنِ صادق کا وجدان خود فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہے، کیوں کہ پیغمبرِ اکرم (ص) سے ایک حدیث منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: "صحیح فیصلہ کرنے کے لیے اپنے وجدان اور ضمیر سے رجوع کرو، اس میں جس کسی چیز سے بھی اذیّت پہنچے، اس سے دوری اختیار کرو۔"

٢- سورہَ احزاب: ۳۳، آیات ۵۸ اور ۵۹

ایک اور آیت خواتین کے لباس کے متعلٰق سورہَ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ ہے۔

"اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت) سے، جو انھوں نے نہ کیا ہو، ایذا دیں تو انھوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔" (قرآنِ کریم، سورۂ احزاب:۳۳، آیت۵۸) اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اور اللّہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔" (قرآنِ کریم، سورۂ احزاب:۳۳، آیت۵۹)

مندرجۂ بالا آیات کے مطابق اُس زمانے میں مسلمان مرد اور خواتین، دونوں کو آزار و اذیّت دینا عام تھا، اِس لیے اذیّت سے بچنے کے لیے انھیں گھر سے باہر نکلتے وقت بیرونی چادر (جَلَابِيبِ ) اوڑھنی پڑتی تھی۔ لہٰذا اس آیت سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ عورتوں کو چادر پہنا کر گھر میں قید کر لیا جائے، بلکہ انھیں آزار و اذیّت سے بچانا مطلوب تھا۔ ایسے معاشروں میں، جہاں مسلمان خواتین کے لیے ایسا کوئی خوف نہ ہو تو اُن کے لیے کسی بیرونی چادر کو اوڑھنا ضروری نہیں، کیوں کہ صرف ایک ایسے کپڑے کو پہننا کوئی معنی نہیں رکھتا جو اِس حکمِِ قرآنی کے حقیقی اصول پر پورا نہیں اترتا۔13

یہ بات مسلّم ہے کہ مختلف معاشرے قرآن کے حقیقی پیغام کو قبول کرنے کے بجاے اپنی قومی اور ثقافتی رسم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور نتیجے کے طور پر حجاب کے سطحی ترین معنی میں کپڑے کے ایک ٹکڑے کو عورتوں کے لباس کا حصّہ قرار دیتے ہیں اور حجاب کے وسیع اور جامع معنی پر کبھی توجّہ نہیں دیتے۔

نذیرہ زین الدّین کہتی ہیں: انسان کے اخلاقی پہلو، نجابت اور وجدانِِ صادق، اس کے ظاہری حجاب سے بدرجہا بہتر ہیں۔ حجابِ ظاہری کا کوئی حاصل نہیں، بلکہ ہر شخص کی ذات میں موجود پاکیزگی اور دانش مندی ہی کار آمد ہے۔ نذیرہ اپنی کتاب کے ایک حصّے "السّفور والحجاب" کو اس نتیجے پر ختم کرتی ہیں کہ یہ کوئی اسلامی فریضہ نہیں کہ مسلمان خواتین اپنے سر کو ڈھانپیں۔ اگر اسلامی قانون کے وضع کرنے والوں نے یہ تہیّہ کر رکھا ہے کہ حجاب مسلمان خواتین کے لیے لازم ہے تو انھوں نے غلط سمجھا ہے۔14

بعض ممالک میں آج کے دور میں حجاب اپنے سیاسی عقیدے کے اظہار کے طور پر بیرونی طاقتوں کے دباو سے آزادی حاصل کرنے اور ان کے تسلّط سے جان چھڑانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

بہ ہرحال، وجہیں جو بھی ہوں اور جو بھی نظریات اور دلیلیں پیش کی جائیں، خواتین کے لیے چہرہ اور سر چھپانے کے لیے قرآنِ کریم میں کوئی ایسا دستورالعمل موجود نہیں۔


I- Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Dawn (Verdugo City Ca: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1991)
2- Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Theory "I",(Riverside, CA: M.T.O. Publications, 2002)
3- Ahmed, Leyla, Women and Gender in Islam: Historical Roots of a Modern Debate, (New Haven: Yale University Press, 1992), p.5 4- Ibid., p. 56
5- Aslan, Reza, No god but God, (Random House Inc. New York, NY, 2005) p.65
6- John Esposito, Islam: The Straight Path,(Oxford University Press, 3rd Edition, 2005) p.98 7- Shaykh Muhammad al-Ghazali.: Sunna Between Fiqh and Hadith (Cairo: Dar al-Shuruq, 1989, 7th edition, 1990)
8- Shaykh Mustafa al-Ghalayini, Islam ruh al-madaniyya (Islam: The Spirit of Civilization)(Beirut: al-Maktabah al-Asriyya)1960) P.253
9- Nazira Zin al-Din, al-Sufur Wa'l-hijab (Beirut: Quzma Publications, 1928) pp.255-56
10- Abd al-Halim Abu Shiqa, Tahrir al-mara' fi 'asr al-risalah (Kuwait: Dar al-Qalam, 1990)
11- Fatima Mernissi, The Veil and the Male Elite: A Feminist Interpretation of Women's Rights in Islam. translated by Mary Jo Lakeland (Addison-Wesley, 1991)
12- Translated and explained by Muhammad Asad, The Message of the Qur'an ( Dar al-Andalus, Gibraltar. 1984) p.538
13-Ibrahim B. Syed, article on Women in Islam: Hijab, (Islamic Research Foundation International, Inc, Louisville, KY. November 3, 1998)
14-Nazira Zin al-Din, al-Sufur Wa'l-hijab (Beirut: Quzma Publications: 1928), p 37