حقیقت کے انکشاف میں دماغ کے حواس اور اختیارات کا محدود ہونا
کتاب ''تھیوریً من"1 ازمولانا صلاح الدّین علی نادر عنقا، پیرِ اویسی
"معنوی پہلوؤں کو دریافت کرنے کے لیے مادّی پہلوؤں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔"
مولانا شاه مقصود صادق عنقا، پیر اویسی2
ایک انسان آگاہی اور شناخت حاصل کرنے کے لیے جو وسیلہ اختیار کرتا ہے وہ اُس کی عقل و دانش ہے، لیکن یہاں اُن حدود میں دماغ کی کارکردگی کے طریقے پر غور کرنے اور حواس سے کام لینے کی کیفیت پر غور کرنے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ حقیقتِ لامتناہی کی شناخت کے حوالے سے دماغ اور حواس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں اور دراصل انسان جس چیز کو اپنی عقل و خرد کے عنوان سے میزان اور معیار قرار دیتا ہے، وہ محدود اور مجازی ہے، اور عقل و فکر کی حقیقت سے بہت دور ہے۔
حقیقت کے انکشاف کے لیے دماغ کے اختیارات محدود ہیں۔ وہ اصولی طور پر حواس کے ذریعے پہنچی ہوئی اطّلاعات کا محتاج ہے اور اُن پر بھروسا کرتا ہے۔ انسان حدود میں حواس سے کام لیتے ہوئے، دوسرے الفاظ میں، قیاسی ادراک کے طریقے سے حقیقت، یا اپنے اندر پوشیدہ تعلیمات کی شناخت اور کشف پر قادر نہیں ہو سکتا۔تا۔
حاصل شدہ معلومات کو استعمال کرنے میں دماغ کی کارکردگی کی کیفیت:
دماغ کی کارکردگی کے طریقے پر غور کرتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا دماغ لاکھوں عصبی خلیات (نیورون) سے تشکیل پایا ہے، اور انسانی جسم کے اعضا میں سے ہر ایک خصوصی طور پر اپنے لیے دماغ میں عصبی مراکز رکھتا ہے۔ حواس میں سے ہر ایک کے ذریعے حاصل شدہ اطّلاعات عصبی تحریک کی صورت میں نیورون کے ذریعے برقی کیمیائی بہاو کی شکل میں اپنے خاص عصبی مراکز میں انسان کے دماغ میں منتقل ہوتی ہیں، اور اِن عصبی مراکز کی تحریک دیکھنے، سننے وغیرہ جیسے مظاہر کو پیش کرتی ہیں۔
جس وقت یہ برقی کیمیائی بہاو دماغ کے ایک مخصوص عصبی مراکز تک پہنچ جاتا ہے اور اُن کو متحرّک کرتا ہے تو دماغ موجودہ اطّلاعات کو حافظے میں برقی کیمیائی نمونوں کی شکل میں پہلے سے موجود اطّلاعات کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھتا ہے اور اسی کے نتیجے کے طور پر کوئی شخص کسی خاص صورتِ حال میں اپنے ردِّعمل کا اظہار کرتا ہےـ
ہمارا دماغ ایک کمپیوٹر کی مانند موجود معلومات کی حدود میں کام کرتا ہےـ جب بھی انسان کسی نئے خیال یا کسی نامعلوم موضوع کا سامنا کرتا ہے تو یہ اطّلاع اُسی طرح ہمارے ذہنی عمل میں شامل ہوتی ہے جیسے کوئی کمپیوٹر کے بٹن کو دباتا ہے اور اُس نامعلوم چیز کو حاصل کر کے اپنے دماغ میں معلوم [اطّلاعاتِ حافظہ] اور اُس کے بعد اُسی خاکے کے اندر مطابقت اور الگ الگ کرتے ہوئے تحلیل و تجزیہ کرکے آخرِ کار اُسے قبول یا رد کرتا ہے۔ اصطلاح میں اِسے 'غور و فکر' کہتے ہیں۔ اُس کا رد، یا قبول کرنا اُن چیزوں کی بنیاد پر ہے جو ابھی تک اُس نے جمع اور حاصل کی ہیں، یا تجربہ کرکے اپنے حافظے میں محفوظ کی ہیںـ پھر اِسی علم اور دانائی کو اپنا پیمانہ اور معیار قرار دیتے ہوئے وہ اُسے مختلف چیزوں کو پرکھنے کے لیے استعمال کرتا ہےـ۔
حدود میں حواس کا استعمال:
دماغی کام کا انحصار ان اطّلاعات پر ہے، جو ہمیں جسمانی ذریعے سے، یا حواس سے کام لینے کی بِنا پر ملتی ہیں۔ اگر ملنے والی اطّلاعات غلط ہوں تو حاصل شدہ نتائج بھی غلط ہوں گے۔۔
مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ ہمارے حواس اپنی حدود میں امواج کو ایک معیّن طولِ موج (wave length) کے ساتھ لینے پر قادر ہیں، اور صوتی اور نوری امواج کا وہ گروہ جس کا طولِ موج، یا اُس کی فریکوئنسی ہمارے سننے اور دیکھنے کی توانائی اور قدرت کے معیار سے زیادہ، یا کم ہے، ہماری دست رس میں نہیں۔ اسی طرح ہمارے کان صرف اِتنی قدرت رکھتے ہیں کہ 16 سے 16000 ہرٹز فریکوئنسی کی امواج کو گرفت میں لے سکیں۔ اِسی طرح ہماری آنکھ صرف نوری طیف کے ایک حصّے کو دیکھ سکتی ہے۔ ہمارے حواس زیریں سرخ طولِ موج والی شعاعوں کے علاوہ کسی اَور چیز کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اگرچہ فنّی مشینوں کے ذریعے اُن کی ناپ تول کی جا سکتی ہے اور اُنھیں ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ ہمارے حواس موجودہ حدود کی بِنا پر اپنے وجود کی واقعیت کے انکشاف میں رہنمائی نہیں کرسکتے۔
علمِ اکتسابی اور علمِ ذاتی:
علمِ اکتسابی انسان کی مدد کرتا ہے کہ وہ حقیقت کی فقط ایک تصویر حاصل کرسکے، لیکن واقعیت کو اِس طریقے سے کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز انسان کو حواس کی حدود میں تجربہ کرنے کی قدرت دیتی ہے، وہ اُس کے ادراکات ہیں، اور 'درک' کے معنی اُس قیاس کے ہیں جو حافظے میں ریکارڈ ہو چکا ہے۔ حقیقت قابلِ درک نہیں ہے، بلکہ اُسے "دریافت" کیا جانا چاہیے۔
موجودہ حدود کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم کس طریقے سے محدود حواس کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنے قیاسی ادراک پر بھروسا کرتے ہوئے لامحدود اور لامتناہی حقیقت کو پا سکتے ہیں۔ مولانا شاہ مقصود صادق عنقا اِس مطلب کے جوہر کو یوں بیان فرماتے ہیں: "معنوی پہلوؤں کو دریافت کرنے کے لیے مادّی پہلوؤں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔"[2]
اپنے جوہرِ ذات کی پہچان اور "میں" کی حقیقت کی دریافت کے لیے انسان کو چاہیے کہ اپنے محسوسات کی حدود سے بلندتر ہونے کی ہمّت کرے۔ یقینًا اِس کام کے لیے اُسے ایسے لوازمات کی ضرورت ہوگی جو وجود سے بھرپور طور پر ہم آہنگ ہوں، لہٰذا خود شناسی کے اِس سفر کے آغاز کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ قوّتوں کے اجتماع (تمرکز) اور ہم آہنگی کے حصول پر انحصار کیا جائے۔