جہاد کی حقیقت
جہاد کی حقیقت اور اس کے عمیق روحانی معانی کسی بھی قسم کے منفی پہلو سے مبرّا ہیں اور اس کی حقیقت آج کے معاشروں میں غلط طور پر رائج مفاہیم کے بالکل برخلاف ہے۔ جہاد ایک دینی فریضہ اور شرعی ذمّے داری ہے تاکہ انسان کی اندرونی صلاحیتوں کی تربیت و پرورش ہو کر اسے روحانی عروج حاصل ہوجائے۔ جہاد کا انتہاپسندی اور جنگ سے ہرگز کوئی تعلّق نہیں۔جہاد "جہد" کے لفظ سے بنا ہے، جو کوشش اور سعی کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد اپنی انتہائی ہمّتوں اور قوّتوں کو صَرف کرکے پست صفات اور جلد ختم ہونے والی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنا ہے؛ اور سرکش نفس کا تزکیہ کرتے ہوئے انسان کی وجودی حقیقت کو منکشف کر کے اس کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ جہاد بنیادی طور پر خودشناسی کے سفر میں باطنی جدّوجہد کا نام ہے۔ ہر مومن کو چاہیے کہ اس انتہائی خواہش سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ ہو، جو اُس کے باطنی سفر، عروج اور خدا کی شناخت ہے۔
جہاد "جہد" کے لفظ سے بنا ہے، جو کوشش اور سعی کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد اپنی انتہائی ہمّتوں اور قوّتوں کو صَرف کرکے پست صفات اور جلد ختم ہونے والی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنا ہے؛ اور سرکش نفس کا تزکیہ کرتے ہوئے انسان کی وجودی حقیقت کو منکشف کر کے اس کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ جہاد بنیادی طور پر خودشناسی کے سفر میں باطنی جدّوجہد کا نام ہے۔ ہر مومن کو چاہیے کہ اس انتہائی خواہش سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ ہو، جو اُس کے باطنی سفر، عروج اور خدا کی شناخت ہے۔
جہاد کا مقصد نفس پر غلبہ، اُس کا تزکیہ اور اُس کی معراج ہے۔ نفس اپنے پست ترین درجے میں وجودِ انسان کی سرکش ترین صفات اور انسانی جبلّتوں، تکبّر اور خودخواہی کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ صفات انسان کو مسلسل پستی کی طرف دھکیل کر اسے معنوی معراج سے روکتی ہیں۔ خودشناسی کا سفر نفس کے ساتھ مسلسل مقابلہ کرتے ہوئے، اُس کے تزکیے کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ خداوند قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى
"اور وہ جو اپنے پروردگار کے مقام سے ڈرتا اور نفس کو خواہشات سے روکتا رہا۔"
(سورۂ النّٰزعٰت:۷۹، آیت۴۰)
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ
اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم اُنھیں ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے اور یقینآ خدا نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
(سورہَ عنکبوت:۲۹، آیت ۶۹)
نفس انسان کو طمع، لالچ، حسد، تکبّر، خودخواہی اور پست صفات کی طرف ابھارتا ہے، جن کا انجام پشیمانی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ نفس کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھے اور اُس کے تزکیے کی کوشش کرتا رہے؛ بالکل اسی طرح جیسے سرکش گھوڑے کی مہار کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑی جا سکتی، صرف یہ نہیں کہ اُس کا کنٹرول اس پر نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ ہر وقت اسے لگام کے ذریعے قابو کر کے رام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیوں کہ سوار کو معلوم ہے کہ ایک لمحے کی غفلت اُسے راستے سے دور کر کے مقصد تک رسائی غیرممکن بنا دے گی۔
رسولِ اکرم حضرت محمّد(ص) نے نفس کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اُس کے تزکیے کو "جہادِ اکبر" نام دیا ہے۔ کیوں کہ حضورِ اکرم(ص) کے فرمان کے مطابق حدیثِ قدسی ہے کہ آپ نے فرمایا: "تمھارا بدترین دشمن وہ ہے جو تمھارے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔" جہادِ اکبر اور تزکیہَ نفس بغیر کسی روحانی معلّم کی ہدایت کے ممکن نہیں۔ روحانی معلّم وہ عارف، ہادی اور رہنما ہے جو سیروسلوک، دوسرے الفاظ میں خودشناسی کے راستے کو سالک کے لیے ہموار کر کے اس کے لیے معراج کا سامان فراہم کرتا ہے۔
مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی ® کی تعلیمات کے مطابق انسان کا بدن ایک ذاتی نظام کا حامل ہے جو اس کے لیے بلند درجات کے لیے معراج فراہم کرتا ہے۔ مولانا صلاح الدّین علی نادر عنقا مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی ® مکتبِ عرفانِ اسلامی ® کے پیر فرماتے ہیں:
"انسانی وجود کی حقیقت کا انکشاف اور حقیقی 'میں' کی شناخت، صلح، یقین اور سکون کی سوغات پیش کرتا ہے۔ کشف و شہود اور حصولِ علم کی بنیاد پر یقین میسّر ہوتا ہے۔" ١
اسلام میں "جہاد" فروعِ دین کے ارکان میں سے ایک ہے۔ ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ اسے نافذ کرے۔ فروعِ دین کے ارکان تزکیۂ نفس کی خاطر وضع کیے گئے ہیں اور وہ یوں ہیں:
صلوۃ: نماز، روزانہ کی پانچ نمازیں۔
صوم: روزہ ماہ رمضان کا۔
خمس: آمدنی اور قوّتوں کو امورِخیر کی انجام دہی میں استعمال کرنا۔
زکات: نفس، مال اور کردار کے عوارض سے پاکیزگی۔
حج: خدا کے گھر کی زیارت اور مناسک کی ادائیگی۔
جہاد: شناخت و معرفت کی راہ میں کوشش۔
امر بالمعروف: علم و معرفت کو پھیلانا۔
نہی عن المنکر: جہالت سے روکنا۔
I. Angha, Salaheddin Ali Nader. Theory "I", Riverside, CA: M.T.O. Publications, 2002, Print. |