عرفان،علم کا طریقہ

وَ لا تَقفُ ما لَیسَ لَکَ بِہِ عِلم.
(جس چیز کے بارے میں تمھیں علم نہ ہو، اُس کی پیروی مت کرو۔)

قرآنِ کریم(سورہ ۱۷/بنی اسرائیل، آیت۳۶)


ڈھائی ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزرا، افلاطون نے اپنی مشہور تمثیل "غار" میں انسان کی حیرانی اور اُس کی ناتمام تعلیم کی وضاحت یوں کی ہے:

"اپنی پیدائش کی ابتدا ہی سے تم ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے، اپنے سرد اور تاریک غار کی دیوار سے لگے جکڑے ہوئے بیٹھے ہو اور ایک گوشے میں تمھاری براہِ راست نظروں سے ہٹ کے ایک الاو روشن ہے اور تمھارے اِس نیم تاریک غار میں تم اپنی غفلت میں مبتلا ہو کر روشن سایوں اور غار کی دیوار پر منعکس ہونے والے نقوش سے مبہوت ہو اور لوگوں کے سایوں اور اپنی پیٹھ پیچھے پریڈ کرتی ہر چیز کو تم حقیقت سمجھ بیٹھے ہو۔ اپنی اِس افسوس ناک حالت میں تم زندگی گزار رہے ہو اور گرفتار ہو۔ اُس وقت تک کہ کوئی شخص آئے اور معجزانہ طور پر اِس قید و بند سے تمھیں رہائی دلادے، جب کہ تم اِس بات پر قادر ہو سکتے تھے کہ مُنہ پھیر کر اپنے پیچھے نگاہ ڈال سکتے اور ہزاروں درد و فغاں اور شکایات سے اپنی غم انگیز حالت سمجھ پاتے اور اپنی غفلت و گم راہی سے آگاہی حاصل کرتے اور پہلی بار غار میں ہونے والے واقعات کی حقیقت دیکھ لیتے۔ اُس کے بعد اپنے نجات دہندہ اور ہادی کی مدد سے غار کے دروازے کی طرف نکلتے تو اچانک نیلا آسمان، سبز باغات، تازہ ہوا اور آخرِکار دمکتی ہوئی دھوپ اور چمکتے ہوئے سورج کا مشاہدہ کرتے اور اِس طرح غار کی حدود سے باہر موجودحقیقت کو جان لیتے اور شناخت پا لیتے۔ یوں ہے کہ حیرانی سے رہائی پانے، آزادی حاصل کرنے اور 'مکمّل تعلیم' کے لیے معلّم اورہادی کی ضرورت ناگزیر ہے۔"1

افلاطون اپنے تجربات کی بنا پر اِس امر سے واقف ہوگیا ہے کہ وہ اپنے مادّی احساسات اور اپنے محدود ادراکات کا قیدی بنا ہوا تھا۔ یہ قدیم تمثیل اکثر خیالی اور فلسفیانہ داستان سمجھی جاتی ہے، یہاں تک کہ انسان متوجّہ ہوجائے اور یہ جان لے کہ اُس نے اپنی تمام زندگی اور عمر ٹھیک ایک ایسے محدود غار ، دوسرے الفاظ میں، اپنے صدرِ جسم میں واقع غار، یعنی اپنے دماغ میں بسر کی ہے۔ یہیں سے یہ خیالی داستان اچانک ایک جیتی جاگتی اور مربوط حقیقت قرار پاتی ہے۔ انسان کا دماغ اُس کے تمام اکتسابات، محدود حسّی ادراکات، جذبات اور احساسات کا منبع و مخزن ہے۔ انسان کی مجازی شخصیت آخرِکار دماغ اور حافظے کے برقیاتی پروگراموں اور بایوکیمسٹری کے خاکوں میں ریکارڈ ہو کر فائل بناتی گئی ہے۔ حقیقت کے بارے میں انسان کی تحصیل اُس کی نسبت محدود اور مخدوش ہے، جو "ہے" اور موجود ہے، اور اُس نے اپنی زندگی کی بنیاد اپنے دماغ اور اپنے محدود افکار کی روشنیوں کے سائے میں رکھی ہے۔ حقیقت میں وہ اپنے افکار کے غار میں قید اور گرفتار ہے۔2

بیش تر علوم کی آخری تحقیقات میں افلاطون کے نظریے کی تائید ہوئی ہے اور اُسے قابلِ قدر سمجھا گیا ہے۔سائنسی کتابوں کے مصنّف فلپ ہِلٹز 3 Philip Hilts نے اپنی کتاب "حافظۂ بشر" میں انسانی "غار" بالفاظِ دیگر محدود ادراکات و تحصیلات اور اکتسابی دانش کے بارے میں چند مشاہدات پیش کیے ہیں، اور چند ایک کلیدی نکات کو، جو سائنسی تحریروں میں بڑی ندرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں، بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ: "ہم اپنی روزمرّہ زندگی میں مسلسل اِس طرح کام کرتے ہیں گویا ہمارے پاس اپنے آپ سے باہر کی دنیا کی ایک روشن تصویر اور مکمّل علم ہے، جب کہ اپنے حسّی تجربات کے فریم میں لامحدود کُلّیت میں سے صرف ایک محدود علم رکھتے ہیں اور ہمارا تصوّر صرف اِس پر ہے کہ ہم ہستی کی حقیقت کے ادراک پر قادر ہیں۔"2

ہہِلتز کہتا ہے کہ ہمیشہ دسیوں سال، بلکہ طویل قرنوں تک وقت کی ضرورت ہوتی ہے کہ متداول اور رائج علوم سے بہت مختلف نظریہ قابلِ قبول ہو اور ایک بنیادی نکتہ علمی معاشروں میں اپنا مقام پائے۔ دراصل ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ صحیح راستے میں قدم رکھیں تاکہ ایسے انکشافات کی ترقّی اور پھیلاو ہو سکے ۔

دانشور اِس مسئلے میں متّفق ہیں کہ انسانی آ ٓگاہی اور اُس کا علم انسانی وجود اور ہستی کی حقیقت کے مقابل بہت ہی محدود ہے۔ مثال کے طور پر کوانٹم فزکس واضح طور پر اس نکتے کی نشاں دہی کرتی ہے کہ صرف یہی نہیں کہ انسان حقیقت کی شناخت نہیں رکھتا، بلکہ حقیقت کے تصوّر پر بھی اُسے قدرت حاصل نہیں ہے۔ آئن اسٹائن کے ہم کار آرٹر ایڈینگٹن نے افلاطون کے غار کی طرف رجوع کرکے زندگی کے میدان میں انسان کے مقام کو "جانی پہچانی زندگی کے روشن سائے کی نمائش کے نظارہ گر" سے تشبیہ دی ہے۔4

انسان اپنے حواس کا قیدی ہے اور اِس کے نتیجے میں ہستی کی حقیقت سے دور ہے۔ انسان یہ تصوّر کرتا ہے کہ ہستی کی حقیقت کی، جس میں وہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے اور محسوس کرتا ہے، تلخلیص ہوگئی ہے، جب کہ اشیا، موجودات اور فطرت کی حقیقت ویسی نہیں جیسی ہمیں نظر آتی ہے اور انسان اپنے حواس سے کام لیتے ہوئے ایک محدویت میں حقیقت کو دریافت کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ مکتبِ طریقتِ اویسیٔ شاہ مقصودی کی تعلیمات کے مطابق انسان کا بدن خود اپنے اندر ایک میکانزم کا حامل ہے جو اُسے بلند ترین وجودی مرتبہ فراہم کرتا ہے۔ وجود کا معلّم ایسی معراج اور سیر و سلوک کے اسباب فراہم کرکے انسان کی "نامکمّل تعلیم" کو کامل کردیتا ہے۔


I. G.M.A. GRUBE, trans. The republic of Plato, Hackett, Indianapolis, 1974, pp. 170-171.
2. Hazrat Nader ANGHA, Theory "I", M.T.O. Shahmaghsoudi® Publications, Riverside, CA, USA, 2002, p. 143-144.
3. Philip HILTS, Memory Ghost: the Nature of Memory, Simon and Schuster, New York, 1995, p. 22.
4. Sir Arthur EDDINGTON, The Nature of the Physical World, Macmillan, New York, 1929. Quoted in : Ken WEBER, Quantum Questions: Mystical Writings of the World's Greatest Physicists, Shambhala, Boulder, CO, 1984, p. 9.